چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات منفرد اور مضبوط ہیں جنہوں نے تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی مضبوطی کو ثابت کیا ہے۔ گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی 96ویں سالگرہ کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ پیپلز لبریشن آرمی اور پاکستان آرمی ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ہمارے تعلقات ہمارے اجتماعی مفادات کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ اس تقریب میں چینی ناظم الامور نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے اس سلسلہ میں جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی سالگرہ کی اس تقریب میں چینی ناظم الامور پینگ چنگسو کے علاوہ چین کے دفای اتاشی میجر جنرل وانگ ژونگ، چینی سفارتخانے کے دوسرے حکام اور پاک فوج کے افسران نے بھی شرکت کی۔
چینی ناظم الامور نے تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان تعاون پر مبنی شراکت داری وقت اور بین الاقوامی تناظر میں ضروری ہے۔ دونوں ممالک نے ابھی مشترکہ طور پر سی پیک کے آغاز کی دسویں سالگرہ منائی ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کے آرمی چیف اور دیگر فوجی رہنمائوں نے چین کے کامیاب دورے کئے جس سے دونوں ممالک کی افواج کے تعلقات کو مضبوطی سے فروغ حاصل ہوا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس موقع پر پی ایل اے کو مبارکباد دی اور چین کے دفاعی‘ سلامتی اور قوم کی تعمیر میں کردار کو سراہا۔ انہوں نے دونوں ممالک کی فوج اور عوام کے مابین گہرے تعلقات کے مختلف پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی۔
اس تقریب میں چین کے صدر شی جن پنگ کا سی پیک کی دسویں سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا بیان بھی پڑھ کر سنایا گیا جس میں صدر عوامی جمہوریہ چین نے کہا کہ پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کو فروغ دینے میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کا اہم کردار ہے اور عالمی منظر نامے میں تبدیلیوں کے باوجود چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ چین اور پاکستان نے سی پیک سے باہمی ترقی کے بے شمار اہداف حاصل کئے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 1948ء میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام سے اب تک پاکستان اور چین ایک دوسرے کے ساتھ بے لوث دوستی کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور بدخواہوں کی مختلف نوعیت کی سازشوں کے باوجود دونوں ممالک کی لازوال دوستی میں کوئی دراڑ پیدا نہیں کی جاسکی۔ چین نے ہر سرد گرم میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور کشمیر کے تنازعہ سمیت ہر ایشو پر عالمی اور علاقائی نمائندہ فورموں پر پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی ہے۔ بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور علاقائی امن و استحکام برباد کرنے کی اس سازشوں کے تناظر میں چونکہ چین اور پاکستان کا دشمن بھی مشترکہ ہے اس لئے اقتصادی، مالی،‘ توانائی اور سماجی بھلائی کے شعبوں کے ساتھ ساتھ ہمارا دفاعی باہمی تعاون بھی بے مثال ہے اور دونوں ممالک مشترکہ دفاعی حصار قائم کر چکے ہیں۔
بھارت نے 1948ء میں ریاست جموں و کشمیر پر اپنا فوجی تسلط جمانے کے بعد چین کے علاقے اروناچل پردیش پر بھی نظرِبد گاڑی اور 1962ء میں کشمیر کے راستے سے ہی وہاں اپنی فوجیں داخل کرکے چین کی آزادی اور خودمختاری کو چیلنج کیا تو دفاع وطن کے تحفظ کے معاملہ میں چین اور پاکستان مزید ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ پاکستان نے چین کا کھل کر ساتھ دیا اور چین کی افواج نے اروناچل پردیش میں داخل ہونیوالی بھارتی فوج کے چھکے چھڑا دیئے۔ چنانچہ کشمیر کی طرح اروناچل پردیش پر بھی اپنا تسلط جمانے کے خواب اپنی آنکھوں میں سموئے ہوئے بھارتی سورمائوں کو ہزیمتیں اٹھا کر وہاں سے الٹے پائوں واپس بھاگنا پڑا۔ اس عرصے میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رکھا ہوا تھا جو کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے دریائوں کے پانی کو کنٹرول کرکے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا تھا۔ اسی تناظر میں بھارت نے 1948ء سے 1971ء تک پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں اور اسے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا جبکہ چین نے ہر بھارتی جارحیت کے موقع پر پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا اور جنگی سازوسامان کے ساتھ اسکی بھرپور معاونت کی۔ چنانچہ دونوں ممالک کے عوام کے ساتھ ساتھ چین اور پاکستان کی افواج بھی ایک دوسرے کے قریب آگئیں جس سے دونوں ممالک کا باہمی دفاعی حصار مزید مضبوط ہوا۔ یہی دفاعی تعاون علاقائی امن و استحکام کی بھی ضمانت بنا اور خطے پر غلبہ حاصل کرنے کے امریکہ اور بھارت کے خواب چکناچور ہوئے۔
چین اور پاکستان کا یہی باہمی تعاون بڑھتے بڑھتے اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے سی پیک کی بنیاد بنا جس کیلئے 2012ء میں چین اور پاکستان کے مابین معاہدہ طے پایا اور 2013ء میں گوادر پورٹ سے اس منصوبے کا آغاز ہوا۔ آج پوری دنیا یہ حقیقت تسلیم کر رہی ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا مشترکہ منصوبہ پورے خطے کیلئے گیم چینجر کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے اپریشنل ہونے سے کسی بھی بدخواہ کی جانب سے ترقی کا عمل روکنا مشکل ہو جائیگا۔ اس سے نہ صرف دوطرفہ تجارت کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ دونوں ممالک کیلئے عالمی منڈیوں تک رسائی کے راستے بھی کھل جائیں گے۔ ان تجارتی سرگرمیوں سے خطے کے تمام ممالک کیلئے خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔ یقیناً اسی تناظر میں خطے کے ممالک نے سی پیک کے ساتھ وابستہ ہونے کی خواہش کا ازخود اظہار کیا ہے جبکہ سی پیک کے ثمرات سے مغربی یورپی دنیا کے مستفید ہونے کے راستے بھی بتدریج کھل رہے ہیں اور سی پیک کو متنازعہ بنا کر اسکے اپریشنل ہونے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی اسکے بدخواہوں کی تمام سازشیں ناکام ہوچکی ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے مشترکہ سازشی منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور سی پیک کی دسویں سالگرہ کے موقع پر چین اور پاکستان نے اسکے پہلے مرحلے کے اپریشنل ہونے اور دوسرے فیز کے اجراء کا دوٹوک اعلان کرکے خطے کے امن و استحکام کی ضمانت بھی فراہم کردی ہے۔
اب چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی 96ویں سالگرہ کا مشترکہ طور پر اہتمام کرکے چین اور پاکستان کی عسکری اور سول قیادتوں نے خطے میں توسیع پسندانہ‘ جارحانہ عزائم رکھنے والے عناصر کو بھی دوٹوک پیغام دے دیا ہے کہ اس سیسیہ پلائی دیوار سے ٹکرا کر وہ اپنے سر تو پھوڑ سکتے ہیں‘ انکی سلامتی کو ہلکا سا بھی نقصان پہنچانا ان کیلئے ڈرائونا خوب بن چکا ہے۔ پاکستان چین دوستی زندہ باد، پائندہ باد۔