ملجم پروجیکٹ: پاک ترک تعاون کی زریں مثال

Aug 04, 2023

ثاقب حسن لودھی

  میرا دیس …ثاقب حسن لودھی
 Saqiblodhi1@gmail.com 
1945 میں امریکہ کے جاپان پر جوہری حملے کے بعد جنگ کے طور طریقے بدل گئے۔ دو بدو لڑائی کی  جگہ جدید ہتھیاروں نے لے لی۔ آسان الفاظ میں  کہا جا سکتا ہے کہ   دوسری جنگ عظیم کے بعد غیر روایتی جنگ مقبول ہو گئی مگر  اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ  آج بھی   مضبوط بری و بحری افواج  ملک و قوم کے دفاع کے لیے   لازم ملزوم سمجھی جاتی ہیں۔  بلاشبہ افواج کی مضبوطی کے لیے کردار سازی، ٹریننگ  اور جدید ترین ہتھیاروں کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے۔ بری  اور فضائی افواج کے ساتھ ساتھ بحری افواج بھی  ریاست کی رٹ کو برقرار رکھنے  میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بحری حدود کا دفاع، دوست ممالک کے ساتھ بحری  تجارت کا فروغ  اور عالمی امن  کے لیے کردار ادا کرنا کسی بھی ملک کی بحری افواج کے لیے ہمیشہ سے اولا ترجیح رہی ہے۔ 
پاک بحریہ بھی ریاست کی بحری حدود کے دفاع کے لیے  ہمہ وقت چوکس ہے۔ اس سلسلے میں 6 ستمبر 2018  کو پاکستان  اور برادر اسلامی ملک ترکیہ کے مابین 4 کاروٹس  بنانے کا معاہدہ ہوا  جس کو عرف عام میں ملجم پروجیکٹ کہا جاتا ہے۔  پی این  ایس بابر  اور پی این ایس خیبر کو  ترکی جبکہ پی این ایس بدر کو اب تک پاکستان  میں  تعمیر کیا جا چکا ہے۔   جبکہ چوتھے پی این ملجم کلاس  کاروٹ کو بھی پاکستان میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے  دونوں ممالک کے  بحری امور کے ٹیکنیکل ماہرین  نے ترکیہ کی دفاعی کمپنی ASFAT کی تعاون سے ٹیکنالوجی شئیرنگ کے ذریعے  تمام کاروٹس مکمل کیے ہیں جنکی افتتاحی تقاریب استنبول اور اسلام آباد میں منعقد کی گئی ہیں۔  ان تقاریب میں پاکستان اور ترکیہ کی اعلی سطح کی سیاسی و عسکری قیادت کی شمولیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ  دونوں برادر اسلامی ممالک  علاقائی و عالمی امن  کے فروغ کے لیے  مشترکہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ 
ان تمام کاروٹس کی بات کی جائے  تو  ان کی لمبائی تقریبا 108 میٹر سے زائد بنتی ہے۔ تقریبا 3000 ٹن وزنی  کاروٹ 26 ناٹ کی  تیز ترین رفتار سے اپنی منزل کی جانب سفر کر سکتے ہیں۔ ان تمام  طیارہ شکن توپ والے جہازوں میں زمین  سیزمین   کے ساتھ ساتھ زمین کے ساتھ فضا میں مار کرنے والے  میزائیل  نصب کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ تمام کاروٹس جدید ترین مشین گن اور تارپیڈو سے بھی لیس ہوں گے جو جنگ کے دوران  سب سے موثر ثابت ہوتے ہیں۔    اس معاہدے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نہ   صرف ترکیہ کاروٹ بنانے میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے بلکہ  ییہی ٹیکنالوجی  پاکستان کو منتقل بھی کی جائے گی  اور بعد ازاں کثیر الجہتی مقاصد کے حصول کے لیے  جناح کلاس فریگیٹ تعمیر کرنے میں بھی پاک ترک ماہرین تعاون کریں گے۔  
ان تمام عوامل سے اندازہ ہوتا ہے کہ  پاک بحریہ نہ صرف ملکی دفاع بلکہ  عالمی امن  کے فروغ کے لیے بھی کوشاں  ہے۔  امن مشقیں ہوں  یا  جنگی جہازوں کی تیاری۔  ملک میں مینگروز کی کاشت کاری ہو  یا دوست ممالک  میں خوراک اور دوائیاں پنچانے کا مشن۔ پاک بحریہ وطن سے کیے گئے اس وعدے کی تکمیل میں مصروف ہے کہ وہ وطن کے دفاع اور خوشحالی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ 

مزیدخبریں