حکایت نہاں…ڈاکٹر عامر عتیق صدیقی
amerdcte@gmail.com
خیبر پختون خواہ میں پرائیویٹ سکول ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام ایک اہم اور دیرینہ مطالبہ رہا ہے جسے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے اپنے دور میں عملی جامہ پہنایا. اتھارٹی کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ طول و عرض میں پھیلے پرائیویٹ/نجی تعلیمی اداروں کو ایک مرکز کے تحت لایا جائے اور حکومتی اداروں و پالیسیوں کے متوازی چلنے والے ان اداروں میں نصاب، رجسٹریشن و طلبہ کی فیسوں کے معاملات تعلیمی سیشن کے اجرائ اور اساتذہ کو درپیش مسائل سے متعلق یکساں اور واضح پالیسی کے تحت چیزوں کو دیکھا جائے اور باقاعدہ چیک اینڈ بیلنس قائم کیا جائے.
ان اداروں میں اکثر مڈل کلاسز تک غیر ملکی مرتب شدہ نصاب لاگو چلا آرہا ہے جو ہمارے معروضی حالات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا. سائنس اور ریاضی کو چھوڑ کر باقی مضامین انگریزی سوشل سٹڈیز ہم نے اپنے تقاضوں، حالات و ضروریات کے مطابق تیار کرنی ہیں. 2006 کے قومی نصاب کی روشنی میں پاکستان میں مرتب کیے جانے والا نصاب بین الاقوامی اور قومی حالات و ضروریات کی روشنی میں مرتب کیا گیا جو کسی طور پر بھی کم نہیں کروایا جا سکتا تاہم بہتری اور ترمیم ایک مسلسل عمل ہے جس سے نصاب گزرتا ہے. نصاب سازی سے متعلق قومی و صوبائی ادارے اس کا مسلسل جائزہ لیتے ہیں.نجی تعلیمی ادارے ان حکومتی اداروں کی طرف سے مرتب کردہ نصاب کو خاطر میں نہیں لاتے اور نہ ہی حکومتی ادارے حکومتی رٹ کے حوالے سے پوچھ گچھ کرتے ہیں.
غیر ملکی نصاب اور بعض صورتوں میں بعض پرائیویٹ طور پر تیار کیا جانے والا نصاب اور نصابی کتب مخصوص ڈیلرز یا ادارے خود اہتمام کرتے ہیں اور مہنگے داموں طلبہ اور والدین کتابیں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں. اور مالکان بھاری کمیشن وصول کرتے ہیں. ستم یہ ہے کہ یہ کتابیں بچوں کو پڑھائی ہی نہیں جارہی ہیں اساتذہ نوٹس بنا کر فوٹو کاپیاں بچوں میں تقسیم کرتے ہیں اور والدین پر اضافی مالی بوجھ ڈال دیتے ہیں. بچوں کو وہی نوٹس حفظ کروائے جاتے ہیں. Coceptual learning کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی. نامی گرامی اداروں کے یہی بچے آگے چل کر ETA امتحانات میں Coceptual learning نہ ہونے کی وجہ سے بہت کم qualify کرتے ہیں. ETA کے گزشتہ پانچ سال کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیے جائیں تو صورت حال واضح ہوگی. عمران خان کی حکومت نے سنگل نیشنل کریکولم کیلیے خاصہ کام کیا تاہم وہ بھی اسے لاگو کرنے میں ناکام رہے. حکومتی اور اپوزیشن کے بہت سے ارکان کے علاوہ اشرافیہ کا ایک بڑا طبقہ تعلیمی اداروں کے مالکان سے وابستہ ہے جنہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر تحریک انصاف کی حکومت کو آگے بڑھنے نہ دیا اور PSRA کو غیر موثر کرتے ہوئے عضو معطل بنا دیا. اور اپنے وسائل میں بے تحاشہ اضافہ کیا. فیسوں کے مراسلے میں یہ ادارے آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں. PSRA اور عدالت عالیہ و عظمیٰ کے واضح فیصلوں کے باوجود بھی ان کی من مانیاں عروج پر ہیں. گرمی /سردی کی تعطیلات کے حوالے سے بھی کسی حکومتی حکم اور نوٹیفکیشن کی پروا نہیں کرتے. چند ایک سکولز کو چھوڑ کر اکثر ادارے بجلی کے متبادل بندوبست و پانی کی فراہمی و کشادہ سیٹ اپ سے محروم ہیں. عام طور پر اساتذہ و ملازمین کے ساتھ ان کا رویہ بھی عدل و انصاف پر مبنی نہیں ہوتا. ایم ڈی PSRA اور انکی پوری ٹیم حکومتی وسائل کے ساتھ پوری طرح موجود ہے. صوبے کا کوئی ضلع اور تحصیل ایسی نہیں جہاں نجی تعلیمی ادارے اپنی انجمنوں کے زریعے ایکا کیے ہوئے حکومتی پالیسی کے متوازی نظام نہ چلا رہے ہوں. والدین اور متعلقین کی آئے روز شکایات صدا بہ صحرا ثابت نہ ہو رہی ہوں. معیاری تعلیم جیسی کوئی چیز سامنے نہیں جارہی آئے روز غیر ضروری فنکشنز کا انعقاد نظریہ و ثقافت سے بے نیازی اور بے فکری لیے ہوئے بڑھ رہا ہے اور ساتھ متوسط اور مالی طور پر غیر مستحکم والدین کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے.۔ایم ڈی PSRA اور انکی ٹیم حکومتی وسائل کے ساتھ موجود ہے. ایسے میں ہم ان سطور میں محترم ایم ڈی پسرا کو توجہ دلاتے ہیں کہ وہ اپنی بھرپور ٹیم کے ساتھ ان اداروں کی مانیٹرنگ کریں. نجی تعلیمی اداروں کے بڑھتے ہوئے استحصال سے طلبہ و والدین کو نجات دلائی جائے، عدالتی و حکومتی فیصلوں کے نفاذ سے سسٹم کی جان چھڑائی جائے.
1973 کے آئین کی روشنی میں اور قومی تعلیمی پالیسیز سے ہم آہنگ یکساں نظام تعلیم ملک اور قوم کی ضرورت ہے. تعلیم کو منافع بخش کاروبار بنانے والوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے جو مسلسل اور مناسب چیک اینڈ بیلنس بغیر ممکن نہیں.۔( صاحب مضمون ،پرنسپل گورنمنٹ سینٹینئل ماڈل ھائر سیکنڈری سکول کوٹ نجیب اللہ ،ھری پور ہیں )
پرائیویٹ سکول ریگولیٹری اتھارٹی: ایک پہلو یہ بھی ہے
Aug 04, 2023