عائشہ رباب
بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ زندگی بہت مختصر ہے۔ پھر کبھی کبھی ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ہم تو ایک عرصہ زندگی سے زندہ ہیں۔دن گزرتے جا رہے ہیں۔ وقت مہینوں اور پھر سالوں میں تبدیل ہو رہا ہے اور زندگی کا سفر ختم ہی نہیں ہو رہا ہے۔یہ اس وقت محسوس ہوتا ہے جب میں اپنی طویل صحافتی زندگی میں ملنے والی سینکڑوں شخصیات کے بارے میں سوچنے لگتی ہوں۔اس طویل عرصے میں قسم قسم کے لوگوں سے وابستہ رہی۔کتنے ہی لوگ ایک بار ملے اور پھر ماضی کا حصہ بن گیے۔کچھ لوگ بار بار ملتے رہے۔مختلف مواقع پر ہم انھیں اور وہ ہمیں یاد کرتے رہے۔بعض سے ہماری دوستی کے رشتہ استوار ہو گئے۔کچھ اجنبیت کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے لیے پھر اجنبی بن گئے۔کچھ اپنے پر خلوص رویوں اور بے غرض تعلق کی بنا پر زندگی بھر اپنے رشتوں اور اپنی دوستیوں کو نبھاتے ہیں۔
اصل میں انسان سچے ہمدرد اور دوست ایسی ہی شخصیت ہوتی ہے۔یہ افراد دولت مند یا بڑے عہدوں پر فائز نہیں ہوتے لیکن ان کے دل بہت شفاف، مکر و فریب سے پاک ہوتے ہیں۔اشفاق احمد قاضی بھی ایک ایسا ہی شخص ہے جو کسی غرض یا صلہ کی تمنا کیے بغیر اپنے دوستوں کی قدر کرتا ہے۔جو دوسروں کے کام آتے رہنے پر یقین رکھتا ہے۔اشفاق قاضی کوئی امیر کبیر نہیں، وہ عالی شان بنگلے میں نہیں رہتا، نہ ہی لاکھوں کی چکتی دمکتی گاڑیوں میں سفر کرتا ہے۔اس کے پاس ایک موٹر سائیکل ہے جس پر وہ چلتے ہوئے اسے کم مائیگی کا احساس کبھی نہیں ہوا۔ وہ دنیاوی اعتبار سے سرمایا دار یا جاگیردار تو نہیں لیکن اس کا دل بہت بڑا ہے جس میں غریب نادار بچوں کیلے بہت دکھ بھرا ہوا ہے۔وہ ان نوجوانوں کیلے صرف دردمندی کا اظہار کرنے کے بجائے ان کیلے عملی کام کرنے پر یقین رکھتا ہے۔وہ اپنا علم تقسیم کرنے کو عبادت سمجھتا ہے۔اس ہی لیے اپنا تجربہ نادار نوجوانوں میں منتقل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔وہ اپنے علم تقسیم کرنے کو عبادت سمجھتا ہے اس ہی لیے اپنا تجربہ نادار نوجوانوں میں منتقل کرنے کیلے انھیں بجلی ،ویلڈنگ، فریج، ایئر کنڈیشنر، گیزر،واٹر پمپ، واشنگ مشین کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام سکھانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔اس تربیت گاہ میں نوجوان آتے ہیں ان سے کوئی فیس نہیں لی جاتی اور انھیں مفت فنی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ یہاں ذیادہ تر ایسے کم عمر لڑکے آتے ہیںجن کے گھروں کے مالی حالات خراب ہو جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ پاتے اور انھیں مجبوراَ مختلف اداروں میں ملازمت کرنا پڑتی ہے تاکہ وہ اپنے گھر وں کی دال روٹی کا بندوبست کر سکیں۔یہ لڑکے صبح آٹھ بجے سے دس بجے تک اشفاق قاضی سے فنی تربیت حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنی اپنی ملازمتوں پر چلے جاتے ہیں۔
سٹیلائیٹ ٹاون راولپنڈی کی اس چھوٹی سی فنی تربیت گا ہ میں لڑکوں کے ایک گروپ نے شارٹ کورس مکمل کیے اور انھیں اسناد کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو مجھے بھی ان بچوں سے ملنے اور باتیں کرنے کا موقع ملا جو ایسے گھروں سے آئے تھے جن کی تعداد ذیادہ ہے یعنی کم آمدنی والے گھرانے۔ایسے خاندان جنھیںاپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کیلے شب و روز انتہائی محنت کرنا پڑتی ہے۔جو صبح کنواں کھودنا شروع کرتے ہیںتو کہیں شام کو جا کر پانی ملتا ہے اور اس کنویں میں پانی بس اتنا ہوتا ہے کہ ایک دن کی پیاس بجھ جائے۔اگلے دن سے پھر کنویں کھودنے کی مشقت شروع ہو جاتی ہے۔ یہ نوجوان جن مختلف اداروں میں چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرتے ہیں وہاں انھیں چھ ہزار اور سات ہزار ماہوار سے ذیادہ نہیں ملتے او ر وہ اپنے کنبے کے کفیل ہوتے ہیں۔وہ اس امید سے اشفاق قاضی سے فنی تربیت حاصل کرنے آتے ہیں کہ شاید یہ ان کے لے روزگار کے وسیع دروازے کھول دے۔
اس دن بھی جو سندیں وصول کر رہے تھے ان کی انکھوں میں مستقبل کے دلکش خواب سجے تھے۔انھیں امید تھی کہ اس فنی تربیت مکمل کرنے کے بعد جیسے پہلے کچھ طالبِ علم ملک کے باہر جانے میں کامیاب ہو چکے ہیں وہ بھی سعودی عرب جا کر ذیادہ کماسکیں گے۔اس موقع ممتاز معالج ڈاکٹر نعمان بشیر نے انگیں مشورہ دیا کہ وہ اگر کام کو عبادت سمجھ کر کریں تو پاکستان میں بھی اتنا ہی کماسکتے ہیں جتنا انھیں باہر جاکر ملے گا۔ڈاکٹر صاحب شائد ٹھیک کہ رہے ہوں لیکن اس ملک میں جہاں کسی شخص کو اس کی اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر ملازمت نہیں ملتی بلکہ سفارش اور رشوت ہر جگہ کام آتی ہے، اس کی ذیادہ دیانتداری اور بھر پور جذبہ کے تحت کام کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔یہ سب کھوکھلی باتیں ہیں۔جس گھر میں فاقوں کی فصل اگ رہی ہو اور جہاں بیماریوں نے ڈیرے ڈالے ڈال رکھے ہوں، اس گھر میں رہنے والے نوجوان کو ایسا موقع ملے تو ضرور فائدہ اٹھانا چائے۔اشفاق قاضی 1976یہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ان کا اپنا بیٹا خرم خصوصی طالبِ علم ہے۔ اپنی معذوری کے باوجود اس نے ٹیکسلا یونیورسٹی سے کمپوٹر سائنس میں ڈگری حاصل کی اور پھر ایک سال تک اس یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا پھر اسے ٹیکسلا یونیورسٹی میں لیکچر شپ مل گئی ۔ـخرم تمام نوجوانوں کیلے مثال ہے۔اس کا حوصلہ اور عزم دوسروں کو زندہ رہنے اور جدوجہد کرنے کا درس دیتا ہے۔وہ ایک اعلیٰ ملازمت پر فائز ہے مگر اشفاق قاضی کاخیال ہے کہ جن نوجوانوں کو وہ مفت تعلیم و تربیت دیتے رہے ہیں ان میں سے کسی کی ماں نے انھیں دعا دی ہو گئی جس کا صلہ میں اللہ تعالی نے ان کے بیٹے کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا۔شائد یہی بات درست ہو لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خرم کو نگہت اشفاق جیسی ماں نہ ملی ہو تو وہ اس مقام تک نہ پہنچ پاتا۔ مسز نگہت اشفاق قاضی نے ایک طرف قدم قدم پر اپنے شہر کا ساتھ دیا دوسری طرف خرم کوہر لمحہ یہ احساس دلاتی رہیں کہ کیا ہوا اگر تم میں جسمانی طور پر کوئی کمی ہے۔ اللہ نے تمھیں ایک اعلیٰ دماغ تو عطا کیا ہے تم اپنے ذہن کو کام میں لاکر ان تمام بچوں سے آگے نکل سکتے ہو جو جسمانی طور پر مکمل ہونے کے باوجود اپنے ذہن کو پوری طرح استعمال نہیں کرتے۔والدین کی حوصلہ افزائی نے خرم کو بلند رکھا اور وہ محنت کی راہ پر چل کر ایک اونچا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ اس کے والدین کے لے سب سے بڑا انعام ہے!!