خانوادہ اہل بیت کی عظیم خاتون حضرت زینبؓ

 آغا سید حا مد علی شاہ موسوی
اسلام وہ مقدس ترین دین ہے جس نے ایک نہیں سینکڑوں ایسی ہستیاں پیش کیں جو اخلاق ،کردار اور گفتار میں مکمل نمونہ تھیں اور خانوادہ رسالت و نبوت کا توہر بڑا چھوٹا باکمال ہے انہی میں سے ایک ہستی نواسی رسو ل ؐ سیدہ زینب بنت علی ابن ابی طالبؓ ہیں ۔سیدہ زینب  زہد و تقویٰ ،علم و آگہی ،صبر و برداشت بلکہ تمام فضائل حسنہ کے اعتبار سے عالم نسواں کیلئے نمونہ حسنہ ہیں ۔آج چودہ صدیاں بیت چلی ہیں جہاں بھی ایثار ،قربانی ،حلم و بردباری ،استقامت و استقلال اور دلیر ی و شجاعت کا تذکرہ ہوتا ہے وہ اس بطلہ جلیلہ کی حیاتِ طیبہ کو دہرائے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
جس طرح دین و شریعت کے تحفظ و عروج اور پیمبر اسلامؐ کی حفاظت،پاسداری اور معاونت کیلئے ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ کی کوششیں بے مثال و لازوال تھیں اسی طرح آپ ؐ کی نواسی حضرت زینب ؓ کا صبر واستقامت اور بقائے دین و شریعت کیلئے عظیم ترین قربانی کائنات کیلئے مثال رہے گی۔حضرت زینب ؓجہاں خانوادہ اہل بیت کی عظیم ترین فرد تھیں وہیں انہیں صحابیہ نبی ؐ کا شرف بھی حاصل رہا۔آپ نے آغوشِ نبوت و ولایت و عصمت میں پرورش پائی ،علم و عرفان کے سرچشموں سے سیراب ہوئیں اور صبر و استقامت و شجاعت کا درس حاصل کیا۔
چنانچہ وہ وقت آہی گیا جب یزید نے تخت حکومت پر بیٹھتے ہی فرزند رسول الثقلین ؐ امام حسین ؓسے بیعت کا مطالبہ کردیا ۔امام حسینؓ نے اسلام کے تحفظ کیلئے مدینہ سے ہجرت کی ٹھان لی اور پھر حج کو عمرہ سے تبدیل کرتے ہیں اور راستوں کو طے کرتے ہوئے کربلا وارد ہوتے ہیں اور روزعاشورہ اپنے 72جانثاروں کے ساتھ دین و شریعت کی پاسداری ، حرمتِ انسانی کی پاسبانی اور دین الہی کی ترجمانی کیلئے وہ عظیم قربانی پیش کرتے ہیں جسے فدیناہ بذبح عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔
عاشورہ کربلا کے بعد تحریک زینبی کا آغاز ہوتا ہے۔اب زینب ؓاس کاروان کی سید و سردار ہیں جس کے سید و سردار مدینہ سے کربلا تک حسین ؓ تھے۔گیارہ محرم61ہجری کو یزیدی لشکراس کاروان کو اسیر کرکے کوفہ و شام کی جانب چلا ۔آپ نے دین حق کی جس طرح پاسداری و حفاظت کر کے شہدائے نینوا کے خون کو رائیگاں ہونے سے بچایا اس پر کوفہ و شام کے بازاروں اور ابن زیاد و یزید کے درباروں میں بنتِ حیدرکرار ؑ کے خطبات ،بیانات و تقریرات شاہد وگواہ ہیں۔ اہل بیت اطہار کا لٹا پٹا قافلہ بے پلان اونٹوں پر پابند رسن اور بے پردہ دمشق لے جایا گیا اور جب اسیران کربلا کو یزید کے دربار میں پیش کیا گیاتو وہ فخر و انبساط کا اظہار کرنے لگااور وحی و نبوت کا مذاق اڑانے لگا کہ بنو ہاشم نے نبوت کا کھیل کھیلا تھا نہ کوئی خبر آئی تھی نہ وحی نازل ہوئی (طبری ۔ج2) اور اس کے بعدنواسہ رسول ؐامام حسین ؓ کے چہرہ و سر مبارک پر چھڑی مارنے لگا۔ حضرت زینب  اس ہرزہ سرائی اور نبی ؐ کے لاڈلے حسینؓ  کی توہین برداشت نہ کرسکیں اوراپنے بابا حضرت علی ابن ابی طالبؓکے لہجہ میں وہ تاریخ ساز خطبہ دیا جو رہتی دنیا تک ظلم و جبر میں پسنے والوں کو درس دیتا رہے گا جس پرعمل کرکے ہر عہد کے ظالموں جابروں اور ڈکٹیٹروں کے شکست فاش سے دوچار کیا جاسکتا ہے ۔ 
نواسی رسولؐ بی بی زینب  ؓ نے دربار میں یزید کو مخاطب کر کے فرمایا ’’سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے اور خدا کی رحمتیں نازل ہوںپیغمبر اکرمؐ پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت پر۔اما بعد ! بالاخر برا ہے انجام ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور ان کا مذاق اڑایا۔
اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دئیے ہیں اور کیا آلِ رسول ؐ کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز اور ہم رسوا ہوئے ہیں۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ، سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ذرا دم لے۔کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے جو انہیں مہلت دی ہے ،ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین و مقرر کیا جا چکا ہے۔
اے طلقاء کے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا۔ تیرے حکم پر اشقیاء  نے رسول زادیوں کو بے پردہ کر کے شہر بہ شہر پھرایا۔ اہل بیت رسولؐ کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ لوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بیبیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ااور کوئی ان سے ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔ اس شخص سے بھلائی کی توقع ہی کیا ہو سکتی ہے جو اس خاندان کا چشم و چراغ ہو جس کی بزرگ نے پاکیزہ لوگوں کے جگر چبا کر تھوک دیا۔اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس کا گوشت پوست شہداء کے خون سے بنا ہو۔
اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ میرے اسلاف اگر موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں۔ کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین بن علی ابن ابی طالبؓکے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے۔
اے یزید تو کیوں نہ خوش ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناؤنے جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ تو نے اولاد رسولؐ کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں۔ تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے۔ آج تو آلِ رسولؐ کو قتل کر کے اپنے بد نہاد اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔ تو عنقریب اپنے کافربزرگوں کے ساتھ مل جائے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے میں باز رہتا۔
اس کے بعد سیدہ  زینب ؓ نے آسمان کی طرف منہ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی !!!اے ہمارے پروردگارِ حق تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے۔ اے پروردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما ۔اے یزید ! تو نے جو ظلم کیا ہے اپنے ساتھ کیا ہے۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے۔ تو رسولِ خداؐ کے سامنے ایک مجرم کی صورت لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناؤنے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو دربدر کیوں پھرایا۔  ۔اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا عدالت ِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے اور جبرائیل امین ؑآلِ رسول کی گواہی دیں گے۔ 
آپ نے یزید کو مخاطب کر کے یاد دلایا اے یزید تیری حیات اقتدار میں گنتی کے چند دن باقی ہیں۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ تیرے پاس اس دن کیلئے حسرت و پریشانی کے سواء کچھ بھی نہیں جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کیلئے خدا کی لعنت ہے۔‘‘
کائنات کی افضل ترین ہستی کی نواسی حضرت زینبؓ کے خطبات نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدل ڈالااور ظلم وبربریت کی بنیادیں ہلنے لگیں فتح سے مخمور حکمران شرمندگی  اور شکست کا نمونہ بن گئے،حضرت زینب ؓ کے خطبات نے نہ صرف ظالمانہ  یزیدی حکومت کو بیخ وبن سے اکھاڑ کرپھینک دیا  بلکہ ظلم و جبر کے مقابل صبر و استقامت و جرات کا تا ابد استعارہ بن گئیں۔

ای پیپر دی نیشن