کراچی کی بسمہ سولنگی اور ان کے دیگر سات ہم جماعتوں نے ماہ جون کے دوران اپنا زیادہ تر وقت کراچی میں اپنے اسکول میں سائنس کے ایک پروجیکٹ کے لیے وقف کیا۔ یہ طلباء دوران ڈرائیونگ نیند اڑانے والا ایک چشمہ بنانے کی کوشش میں مصروف تھے جو فوری الرٹ جاری کر کے ڈرائیوروں کو اونگھنے سے روکے گا۔اس ایجاد نے گذشتہ ماہ ماحولیاتی پائیداری اور کاروبار کے موضوعات پر اسکولوں کے درمیان سائنس مقابلے میں انعام جیتنے میں کامیاب ہوئی جس سے آٹھ طلباء کی ٹیم کے لیے ہنٹس وِل، الاباما میں امریکی خلائی اور راکٹ سینٹر کے تعلیمی خلائی کیمپ میں شرکت کی راہ ہموار ہوئی۔ ان کے ساتھ دو دیگر اسکولوں کی ٹیمیں شامل ہوئیں جن میں سے ہر ایک میں 8 طلباء تھے۔عرب نیوز کے مطابق سولنگی نے بتایا کہ ہمارے استاد نے ہمیں آئیڈیا دیا اور ہم نے رات کو ڈرائیونگ کرنے والوں کے لیے یہ پروجیکٹ بنایا لیکن اب ہم اس پر کام کریں گے اور اسے دن کے لیے بھی بنائیں گے۔سولنگی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اینٹی سلیپ گلاسز (نیند روکنے والا چشمہ) آنکھوں کی حرکات اور چہرے کے تاثرات معلوم کرنے کے لیے الگورتھم استعمال کرتے ہیں تاکہ اس بات کا تعین ہو سکے کہ ڈرائیور کب سونے والا ہے۔سولنگی کی ٹیم میں شامل مدثر حسن نے بتایا ہمارے اسکول سے آٹھ طلباء کو منتخب کیا گیا اور ہم نے مل کر اینٹی سلیپ گلاسز بنائے۔امریکی کیمپ میں گزرنے والے وقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے طلباء نے اسے ایک “سیکھنے” والا تجربہ قرار دیا۔سولنگی نے کہا کہ وہ ہمیشہ سے ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں. لیکن کیمپ میں شرکت کرنے اور بہت سے کام اور مشن مکمل کرنے کے بعد وہ اب بڑی ہو کر سائنسدان بننا چاہیں گی۔انہوں نے کہا وہ (کیمپ میں) ہمیں خلا کے بارے میں بتاتے تھے کہ لوگ خلا میں کیسے سفر کرتے ہیں اور وہاں کیسے کھاتے اور رہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا ہم نے ایک راکٹ بنایا، مون-شاٹ کی سواری کی اور نقلی چاند کی سیر کی۔ انہوں نے اُس سواری کی وضاحت کی جو اصل صفر کشش ثقل کے دو سیکنڈ بعد تیزی سے رفتار بڑھنے کی نقل کرتی ہے۔حسن نے کہا کہ اس تجربے سے سائنس کے بارے میں ان کے تصورات کو وسعت ملی۔انہوں نے کہا کہ “ہم نے راکٹ کے بارے میں بہت سی چیزیں دیکھیں اور سیکھیں۔ ہم نے ایک حقیقی خلا باز سے ملاقات کی جن کا نام ڈاکٹر لیری تھا اور ان سے دو دن میں راکٹ بنانا بھی سیکھا۔ وہ ہمیں خلا کے بارے میں ایک فلم دکھانے لے گئے اور ہمیں ایک راکٹ لانچر بھی دکھایا۔”ایک اور طالب علم برہمداغ امیر بخش جن کے اسکول کی ٹیم نے گندم کے بھوسے اور مرغی کے پروں سے کاغذ بنا کر امریکی کیمپ میں جگہ بنائی، نے اس دورے کو “حیرت انگیز تجربہ” قرار دیا۔انہوں نے بتایا یہ میرے لیے بہت پرلطف تھا اور بہت فخر کا لمحہ تھا۔ میں ایک ماحولیاتی سائنسدان بننا چاہتا ہوں اور میرا مستقبل کا منصوبہ جنگلات کی کٹائی کو روکنا ہے۔بخش نے کہا کہ ان کے خاندان اور بڑی برادری کو بھی ان کی کامیابی پر فخر ہے۔انہوں نے کہا جب میں (امریکہ میں کیمپ سے واپس آ کر) اپنے محلے میں داخل ہوا تو سب نے میرا استقبال کیا۔ انہوں نے میری تعریف کی اور کہا کہ یہ ہمارے لیے بہت فخر کا لمحہ ہے۔