مسجد شہدا نقوش اور فیملی

آنے والی نسلوں کو لاہورکے کئی صدیوں کے عہد سے آگاہی کے لئے مسجد شہدا کی بنیادوں میں صرف اور صرف نقوش کے لاہور نمبر کو محفوظ کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس سے ادبی جریدے نقوش کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ادبی جریدہ نقوش جس کے تاریخ ساز مدیر محمد طفیل کو بابائے اردو مولوی عبدالحق نے محمد نقوش کا نام دیا ایک شاندار ماضی کا امین ہے۔ اس کے افسانہ نمبر پنج سالہ نمبر غزل نمبر شخصیات نمببر منٹو نمبر مکاتیب نمبر طنزو مزاح نمبر پطرس نمبر لاہور نمبر شوکت تھانوی نمبر آپ بیتی نمبر غالب نمبر میر تقی میر نمبر میر انیس نمبر اقبال نمبر ادبی معرکے نمبر اور ر نمبروں کا سردارسول نمبر قران نمبر سمیت کتنے ہی مدیرانہ معرکے ہیں جن میں سے ایک ایک کے لئے محمد طفیل کو کئی کئی برس انہیں دنیا جہان کی خاک چھاننی پڑی سفر کرنا پڑے۔یہ سب کچھ اس لئے یاد آ رہا ہے کہ گزشتہ روز اس شجر سایہ دار او ثمر بار کی ایک اور اہم شاخ ٹوٹ گئی۔بشری جاوید اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی گئیں۔محمد طفیل نقوش کی یہ لاڈلی بہو نقوش کے نقوش کو سنوارنے مں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ محمد طفیل نقوش جن کی صحبت میں ہم نے کئی باغ و بہار دن دیکھے اور جن کے دفتر سے ادب کے متعدد قد آور قلم کاروںاور تخلیق کاروں کو نوائے وقت لا کر ادبی مذاکرے کرائے انٹرویو کئے جب دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنے بڑے فرزند جاوید طفیل کو نقوش کی شمع سپرد کی۔ نقوش کا رسول نمبر جو گیارہ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے خاص طور پر ہر وقت آنکھوں کو روشن رکھتا ہے کہ اس کے لئے ایک کردار ہم نے بھی ادا کیا۔یہ اگست کا مہینہ ہے اور اس مہینے کی 15 تاریخ کو جریدے نقوش کے وارث جاوید طفیل کی برسی بھی منائی جاتی ہے۔ 5 جولائی 1986 کو محمد طفیل اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اب اسی مہینے میں ان کی بہو اور نقوش کی موجودہ مدیرہ اور رائٹرز گلڈ ٹرسٹ کی چئیرپرسن فرح جاوید کی والدہ اللہ کو پیاری ہوئی ہیں سو جولائی اور اگست کوایک ساتھ برسیی منائی جاتی ہے۔ اسے المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ محمد طفیل نقوش کے چاروں بیٹے وقت سے پہلے اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے۔جاوید طفیل 15 اگست2018کو ایسے رخصت ہوئے کہ ان کے تینوں بھائی یکے بعد دگرے دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے۔25 جولائی 2021کو فاروق طفیل، 2 اکتوبر2021 کو پرویز طفیل اور 14نومبر 2021 کو اخلاق طفیل نے خالق حقیقی کو لبیک کہا۔ محمد طفیل مرحوم کی رحلت کے بعدجاوید طفیل نے اپنی بیگم اور محمد طفیل کی بہو بشری جاوید کے ساتھ نقوش کو سنبھالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نقوش کے معاملات کے لئے اپنے ساتھ اپنی اکلوتی بیٹی فرح جاوید کو بھی تیار کرتی رہیں۔جنہوں نے بیٹوں کی طرح جریدہ نقوش کو بھی نئے انداز سے شائع کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے اور پاکستان رائٹرز گلڈ ٹرسٹ کی چیئر پرسن کی حیثیت سے سے دوسرے صولوں کا اعتماد حاصل کر کے گلڈ کی سرگرمیوں کی بحالی میں اپنا کردار ادا کر کے اپنے مرحوم والد اور قدآور مدیر اور تخلیق کار دادا محمد طفیل کے نام کو زندہ رکھا ہوا ہے میں نے اگرچہ جاوید طفیل مرحوم کے والد اپنے وقت کے مثالی ادبی مدیر محمد طفیل نقوش کی محفلوں میں بھی سانس لیا ہے اور اس حوالے سے نقوش کے تاریخی سیرت نمبر کے ایک شمارے میں میرے اور جناب محمد طفیل کا مشترکہ تذکرہ اور مکالمہ تاریخ کا حصہ ہیںمگر جاوید طفیل مرحوم کے ساتھ لٹریری سرگرمیوں کی شراکت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کے اہم ترین ادبی ادارے پاکستان رائٹرز گلڈ کی انتظامی باڈی میں بھی مل کر طویل عرصہ تک کام کیا اور دوسرے بہت سے احباب کی طرح ان کی ادبی صحافتی انتظامی خوبیوں کے ساتھ رائٹرز گلڈ کے حوالے سے اس گھرانے کی مثبت سرگرمیوں کو بھی قریب سے دیکھا ہے۔ بشری جاوید کو جاوید طفیل مرحوم کے ساتھ ادارہ نقوش کی باگ ڈور ایسے حالات میں سنبھالنا پڑی تھی جب نقوش پاکستان یا برصغیر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اردو کے ایک باوقار ادبی جریدے کا مقام حاصل کر چکا تھا۔ اتنے بڑے ادبی جریدے کو سنبھال کر آگے بڑھنا آسان کا نہ تھا۔ آج اگست میںجب جاوید طفیل مرحوم کی برسی کا مہینہ بھی ہے اور ان کی عملی طور پر ساتھی رفیقہ حیات کو رخصت ہوئے بھی چند دن ہوئے ہیں تو ان کی رائٹرز گلڈ کے لئے بہت سی دمات یاد آ رہی ہیں انہوں نے ذاتی بڑے ادارے کے ساتھ پاکستان رائٹرز گلڈ کے کے اثاثوں کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اثاثے جو پاکستان گلڈ کے اراکین کی مشترکہ ملکیت تھے اور جن پر ایک مدت سے مختلف سرکاری اداروں اور افسران کی نظریں تھیں۔ جاوید طفیل مرحوم نے اپنے اشاعتی ادارے اور جریدے نقوش کو بھی اپنے عزیزوں کے تعاون سے سنبھالا اور گلڈ کو بھی بھرپور توجہ کا مرکز بنایا۔۔ جاوید طفیل مرحوم نے علم و ادب کے پیاسوں اور خاص طورپر نوجوان نسل کو نقوش پیٹ فارم پر جمع ہونے والے علمی ادبی اثاثوں سے فیض یاب کرنے کیلئے عملی اور ٹھوس قدم اٹھایا۔ انہوں نے نقوش کے تاریخی خاص نمبروں کے نسخے گورنمنٹ کالج لاہور کی لائبریری کے نقوش کلیکشن کیلئے پیش کئے۔ فروری 2007￿ میں پانچ ہزار ایسے نادر خطوط ’’نقوش کلیکشن‘‘ میں جمع کروائے جو دنیا بھر سے اور برصغیر کے مختلف حصوں سے اپنے وقت کے نامی گرامی ادیبوں‘ شاعروں اور دانشورو نے لکھے تھے۔ ’’نقوش کلیکشن‘‘ کو اور زیادہ RICH کرنے کیلئے جاوید طفیل مرحوم کے بعد اب ان کی صاحبزادی فرح جاوید نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور وقت کیساتھ ساتھ جتنی غیر مطبوعہ نگارشات‘ خطوط دستیاب رہے ہیں‘ وہ گورنمنٹ کالج کی لائبریری کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ 
سچ یہ ہے کہ جس نے بھی اپنی زندگی کسی بڑے کام کے لئے وقف کی خود کو دوسروں کے لئے وقف کئے رکھا اس کی زندگی روشنی میں ڈھل جاتی ہے وہ روشنی جو سورج کے نظر آنے سے مشروط نہیں رہتی بس وہ ہر وقت کسی نہ کسی شکل میں گلوب کا احاطہ کئے رکھتی ہے۔ نقوش کے ساتھ کئی ایسے واقعات وابستہ ہیں جن کی وجہ سے اس ادارے کے تمام ارکان کا احترام ضروری ہو جاتا ہے۔ محمد طفیل مرحوم کے حوالے سے صرف ایک حوالہ کافی ہے کہ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے کام سے کئی بار ایک زمانے کوچونکایا مثلا جب وہ غالب نمبر کے لئے خود غالب کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ اپنے جریدے نقوش کی زینت بنایا تو پوری اردو دنیا میں تہلکہ مچ جاتا ہے اور بھارتی پارلیمنٹ تک میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر غالب کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ بھارت میں دریافت ہواہے تو یہ پاکستان کیسے پہنچا اور کیسے پاکستان کے ایک مدیر نے اسے شائع بھی کر دیا۔۔اب جب کہ اس باوقار خاندان میں نقوش کے حوالے سے محمد طفیل نقوش کی پوتی ان کے بڑے بیٹے جاوید طفیل کی بیٹی فرح جاوید اتنی قیمتی وراثت کا بوجھ اٹھانے کیلئیمیدان میں رہ گئی ہے تو امید کی جانی چاہئیے کہ وہ اپنے دادا دادی اپنے والد اورحال ہیں داغ مفارقت دینے والی والدہ بشری جاوید کے ساتھ ساتھ اپنے عزیزاز جان چچوںکی رحلت کے غم کو طاقت میں بدل دیں اور ہمت سے کام لے کر روٹین کے شماروں کے ساتھ ساتھ نقوش کے تاریخی نمبروں کی دوبارہ اشاعت کا سلسلہ شروع کریں۔ اس لئے کہ ان نمبروں کا آج بھی کوئی متبادل نہیں اوریاروں نے تو ان نمبروں خاص طور پر رسول نمبر میں شابل سیرت کی اردو زبان میں پہلی بار سامنے آنے والی کتابوں کو الگ الگ شائع کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن