مسلم اور غیر مسلم اقوام کے درمیان ٹیکنالوجی کا فرق

Aug 04, 2024

اللہ دتہ نجمی

تاریخِ عالم کا مطالعہ کریں تو فارسی کی ایک کہاوت "ہر کمالِے را زَوالِے، ہر زَوالِے را کمال‘‘ ہر تہذیب اور قوم پر صادق آتی ہے۔ 12 جلدوں پر مشتمل شْہرَہ آفاق کتاب’اے سٹڈی آف ہسٹری‘ کے مصنف ’آرنلڈ ٹائن بی‘ نے نظریہ ’’چیلنج اینڈ رسپانس‘‘  میں مختلف تہذیبوں کے بارے میں عرق ریز تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’’عظیم تہذیبوں کو کوئی ختم نہیں کرتا بلکہ یہ اپنے ہاتھوں خود اپنا خاتمہ کرتی ہیں‘‘۔ مشہور مورخ لیوک کیمپ کے مطابق’’سلطنتیں اکثر بہت تیزی سے منہدم ہو جاتی ہیں اور ان کی عظمت اِنہیں روکنے میں کوئی مدد نہیں کر پاتی‘‘۔ ایک ہزار سال غالب رہنے والی سلطنتِ روم 390ء  میں 19 لاکھ مربع میل رقبے پر اپنے آہنی پنجے گاڑے ہوئے تھی۔ پانچ سال کی قلیل مدت میں اِس کا رقبہ سکڑ کر ساڑھے سات لاکھ مربع میل اور پھر 476 ء میں یہ سلطنت تہی دامن ہو کر قصہء پارینہ بن چکی تھی۔ بنی اسرائیل نہ صرف دنیا کی معزز و معتبر قوم تھی بلکہ قدرت کی طرف سے من و سلویٰ کا نزول بھی اسی پر ہوتا رہا۔ مگر آخر کار وہ بھی زوال پذیر ہو گئی۔ 
مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ماضی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کا ماضی اتنا تابناک، درخشندہ اور مْشعشع رہا ہے کہ اْس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کی سرحدیں بر اعظم ایشیا، افریقہ اور یورپ تک پھیلی ہوئی تھیں۔ 1683ء میں ترک ویانا فتح کرنے گئے مگر ویانا فتح ہونے کی بجائے 1699ء تک جاری رہنے والی گریٹ ٹرکش وار میں ہنگری بھی اْن کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اِس ناکامی کے بعد وہ دوبارہ سنبھل نہ سکے۔ 1830ء میں یونان کی آزادی کے بعد ترکوں کے زوال کی رفتار تیز ہو گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر خلافتِ عثمانیہ بھی اختتام پذیر ہو گئی۔ یوں 1920ء تک ایشیائی، افریقی اور یورپی مقبوضات ہاتھ سے نکل جانے کے بعد مسلمانوں کی حکمرانی دنیا کے صرف تین فی صد حصے پر رہ گئی۔ 
1761ء میں احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کی شکست کو عالم اسلام کی آخری فتح کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اگر اِس فتح کو دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو اِس فتح کا منفی اثر یہ ہوا کہ مغلیہ سلطنت کے رہے سہے وقار کا جنازہ بھی نکل گیا۔ دور دراز صوبوں کے حکمران مرکز سے کٹ کر خود مختار ہونا شروع ہو گئے۔ 1526ء سے ظہیرالدین بابر کے ہاتھوں قائم ہونے والی عظیم مغلیہ سلطنت جو اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت تک چالیس لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی تھی، بہادر شاہ ظفر کی بادشاہی میں 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔ 
سلطنتِ برطانیہ کہ جس کی قلمرو میں کبھی سورج غروب نہیں ہوا کرتا تھا، اپنے عالمی غلبے اور رعب و دبدبے کو بمشکل ایک صدی تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہ سکی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سمٹ سمٹا کر چند جزیروں تک محدود ہو گئی۔ سوویت یونین اِس مقام پر پچاس برس بھی فائز نہیں رہا سکا اور افغان وار میں اپنے عالمی وقار کو گرہن زدہ کر بیٹھا۔ 
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کئی دہائیوں سے عروج کے پنکھ سجائے محوِ پرواز ہے۔ اْس نے بھی افغانستان پر حملہ کرنے کی وہی غلطی کر ڈالی جو اس سے پہلے برطانیہ اور سوویت یونین دہرا چکے تھے۔ افغان امریکی فوج سے چھینے ہوئے اسلحے کی بدولت، بقول جنرل حمید گل’’امریکہ کو امریکہ کی مدد سے شکست دینے میں کامیاب ہو گیا‘‘۔ مگر افغان جنگ ہارنے کے باوجود اْس کی معیشت اور رائج عالمی رتبے پر کوئی ڈینٹ نہیں پڑ سکا۔ دراصل دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکہ نے کبھی کسی طاقتور ملک سے براہ راست جنگ نہیں کی۔ ویت نام، عراق اور لیبیا جیسے کمزور ملک اسکی ننگی جارحیت کا نشانہ بنتے رہے۔ جس تکبر، رعونت اور بے رحمی کے ساتھ وہ اسرائیل کو شہ دے کر غزہ کے نہتے باسیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، ان کی نسل کشی کر رہا ہے اور حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک فضائی حملے میں شہید کر دیا گیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ اس پر لا آف نیچر اپلائی ہوگا مگر سرِ دست دنیا میں اس کے غلبے کو کوئی خاص و عام خطرہ لاحق نہیں ہے۔
 یہودیوں نے بھی چودہ پندرہ صدیوں کے بعد دوبارہ عروج حاصل کیا ہے۔ اْن کا عروج بھی عالمی امریکی غلبے کے ساتھ نتھی شدہ ہے۔ تاہم، جرمن فلاسفر، مؤرخ اور سیاسی امور کے محقق اوسوالڈ اسپنگلر کہتے ہیں، ’’ہر وجود فانی ہے، صرف انسان ہی نہیں بلکہ زبانیں، نسلیں، ثقافتیں سب عارضی ہیں- آج سے چند صدیوں بعد کسی مغربی ثقافت کا وجود نہیں ہوگا- کوئی جرمن، انگریز فرانسیسی نہ ہوگا‘‘- ابن خلدون کا کہنا ہے ’’لوگوں کی طرح حکومتوں کی عمریں بھی طبعی ہوتی ہیں اور کوئی حکومت تین پشتوں سے زیادہ عمر نہیں پاتی‘‘۔ علاوہ ازیں، ابن خلدون نے اس حوالے سے 120 سال کی مدت کا تعین بھی کیا ہے۔ 
مفکرین نے قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال میں کہیں سیاسی، سماجی، اخلاقی اور اقتصادی وجوہات کا ذکر کیا ہے، کہیں لوگوں کی خوشحالی، پریشانی اور نفسیات پر بات کی ہے۔ کہیں آب و ہوا اور جغرافیائی پوزیشن زیرِ بحث آئے ہیں تو کہیں پانی، زراعت اور جانوروں کا چرچا ہوا ہے۔ کہیں بیماریاں اور دیگر قدرتی آفات کا تذکرہ ہوا ہے اور کہیں انٹیلی جنس، ٹیکنالوجی اور ٹیکنالوجی کی تیزی سے بدلتی ہئیت کے پڑنے والے اثرات کو بھی زیرِ گفتگو لایا گیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے فاتح، برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کا نقطہ نظر یہ تھا کہ سست، کاہل اور نااہل لوگوں کی جگہ چست، لائق اور قابل لوگوں کو مسلط کرکے تبدیلی لانا بالکل درست اقدام ہے۔ انکے اِسی فلسفے کی رْو سے امریکہ میں مقامی ریڈ انڈینز پر گوروں کو اور معاہدہ باالفور کے تحت، فلسطینی مسلمانوں پر یہودیوں کو مسلط کیا گیا۔ چرچل کے نزدیک اسرائیل کی آزاد ریاست قائم ہونے کی صورت میں یہودی دور حاضر کے علوم اور جدید ٹیکنالوجی میں عربوں پر سبقت حاصل کرنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتے تھے۔ 
فلسطینیوں کو آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے کم و بیش 7 دہائیاں ہو گئی ہیں۔ عرب اور اسرائیل کے درمیان 1948ء، 1956ء ، 1967ء، اور 1973ء میں چار بڑی جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ 1973ء میں لڑی جانے والی جنگ میں اسرائیل کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی، باقی تینوں جنگیں، خاص طور پر 1967ء کی 6 روزہ جنگ نے عربوں کی سیاسی اور عسکری حیثیت پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا …۔ (جاری ہے) 

+++++++++++++++++++++++++++++
مسلم اور غیر مسلم اقوام کے درمیان ٹیکنالوجی کا فرق 
تحریر:- اللہ دتہ نجمی
گزشتہ سے پیوستہ
 
اسلامی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دورِ عروج میں مسلمانوں کی تنظیمی، عسکری اور سفارتی حکمتِ عملی دشمن کے مقابلے میں بہت بہتر ہوا کرتی تھی۔ کہیں وہ عددی اعتبار سے کم ہونے کے باوجود دستیاب حربی وسائل کو زیادہ ذہانت اور تدبر کے ساتھ بروقت استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور کہیں ان کی ٹیکنالوجی دشمن کے مقابلے میں جدید اور بہتر ہوا کرتی تھی۔ 

عرب کی تاریخ میں یہ پہلی مثال تھی کہ حضرت سلیمان فارسی کی مشاورت سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ خندق میں دفاع کے لئے ایک خندق کھودی گئی۔ دشمن کے ذہن میں اِس قسم کی صورتحال کا تصور تک نہ تھا۔ جنگ قادسیہ میں ایرانیوں کے ہاتھی عرب فوج کے لئے بڑا مسلہ بنے ہوئے تھے۔ اْن کو دیکھ کر عربی گھوڑے بدکتے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے اپنی سپاہ کو ایرانی ہاتھیوں کی آنکھوں اور سونڈوں کو نشانہ بنانے کا حکم دیا اور فتح اپنے نام کی۔ دمشق میں دشمن نے فصیل شہر کے گرد کافی لمبی چوڑی خندق کھودی اور اس میں پانی بھر دیا۔ بہت ہی اعلیٰ پائے کے مسلم سپہ سالار، حضرت خالد بن ولید نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اْس خندق کو مشکوں کے ذریعے عبور کیا۔ 

عہدِ عثمانی میں بحری بیڑہ بنایا گیا جس نے 652 میں اسکندریہ پر حملہ کرنے والے رومی بحری بیڑے کو شکست دی۔ سندھ پر حملہ کرنے سے پہلے حجاج بن یوسف نے وہاں کے حالات کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کیں۔ اشیائے خور و نوش کی کمی اور گرمی کی حدت کی اطلاع پر روئی سرکے میں بھگو کر خشک کر لی تاکہ بوقت ضرورت اْس کو پانی میں بھگو کر استعمال کیا جا سکے۔ راجہ داہر کے ساتھ لڑائی میں "عروس" نامی منجنیق کے ذریعے سنگ باری کی گئی اور دشمن کے لہراتے ہوئے جھنڈے کو، جو کہ فتح و نصرت کی علامت سمجھا جاتا تھا، گرا کر سپاہء￿  غنیم کے بلند حوصلوں کو توڑ دیا۔ دریا کو کشتیوں کا پل بنا کر عبور کیا اور جنگی ہاتھیوں سے بچنے کے لئے روغن نفت پھینکا جس سے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ 

سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے لکڑی کے تختوں پر موم چمکا کر ریگستان میں کشتیاں چلا دیں اور ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے جزیرے کو فتح کر لیا۔ شمالی افریقہ کے بد عہد اور سرکش باشندوں کی بد عہدی کو سدھارنے اور سرکشی کو کچلنے کے لئے گھنے جنگلات صاف کروا کر قیروان کے نام سے نیا شہر آباد کیا اور وہاں ایک مضبوط چھاؤنی قائم کی۔ سپین پر حملہ کرنے سے قبل وہاں کے حالات کا مکمل جائزہ لیا گیا، گورنر، کاؤنٹ جولین سے خفیہ رابطے کرکے تمام جزویات طے کی گئیں اور پھر 12 ہزار نفوس پر مشتمل فوج نے راڈرک کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی۔ ولید نے اسلحہ کے کارخانے لگائے۔ موسیٰ بن نصیر نے تیونس میں اسلحہ کا ایک کارخانہ قائم کیا جس میں اس زمانے میں ایک سو جہاز تیار ہوتے تھے۔ برصغیر میں اگر کسی نے انگریزوں کو دو دفعہ شکست سے دوچار کیا تو وہ میسور کا حکمران حیدر علی تھا۔ اْس نے فوج کو یورپی خطوط پر منظم کیا اور ایک لاکھ کے قریب مستقل فوج اپنی کمان میں رکھی۔ جو ڈسپلن اور اسلحے کے لحاظ سے انگریزوں سے بھی بڑھ کر تھی۔ حیدر علی نے بحری بیڑہ بنانے کی طرف بھی توجہ دی۔ افعان وار میں سوویت یونین کی فوج پر عظم افغان مجاہدین کو دئیے گئے امریکی سٹنگروں، میزائلوں اور دیگر حربی ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ 

درج بالا واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمان حکمران میدان جنگ میں نبردآزما ہونے سے قبل دشمن ملک کے حالات و معاملات پر مکمل دسترس حاصل کرتے تھے۔ اِس عمل سے وہ نہ صرف دشمن پر غالب آتے تھے بلکہ ان کا جانی و مالی نقصان دشمن کے مقابلے میں بہت کم ہوا کرتا تھا۔ صد حیف! یہ عظیم الشان قوم ٹیکنالوجی کی ترقی میں سست روی اور دیگر مختلف وجوہات کی بنا پر زوال پذیر ہو گئی جبکہ دوسری اقوام نے مسلمانوں کے علم و دانش سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگی و غیر جنگی ٹیکنالوجی کی مہارت اور جدت میں بے مثال ترقی کی۔ شاہ جہاں کے دور میں برنیر کا دعویٰ تھا کہ 30 ہزار یورپین سپاہی مغلیہ سلطنت کا خاتمہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ 

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت کی آڑ میں ہندوستان پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ ابتدا صوبہ بنگال سے کی گئی۔ اومی چند کے ذریعے میر جعفر کے ساتھ سازباز اور سودے بازی کرکے جنگ کا جواز پیدا کرنے کے لئے بلیک ہول کا واقعہ گھڑا گیا۔ پلاسی کے میدان میں لارڈ کلائیو کی 23 سو فوج نے نواب سراج الدولہ کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی۔ میر جعفر کی غداری کے باوجود نواب سراج الدولہ کی وفادار فوج انگریز سے لڑی مگر روایتی ہتھیار توپ خانے کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ فتح بنگال نے برٹش امپیریلزم کو مضبوط بنیاد فراہم کر دی جس کے بعد ہندوستان کے تمام صوبے ایک ایک کر کے برطانوی عملداری میں آتے چلے گئے۔ برطانوی فوج کی مضبوط بحری قوت اور اسلحہ کے اعلیٰ معیار کے باعث فرانسیسیوں اور پرتگیزیوں کا ہندوستان پر قبضہ کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ 

دوسری جنگ عظیم کے بعد اتحادیوں نے عربوں کی شیرازہ بندی کرکے عربوں کو دفاعی لحاظ سے اتنا کمزور کر دیا کہ وہ تمام مل کر بھی اسرائیل کی وار ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس کا مقابلہ نہ کر سکے۔ اب تو ذاتی مصلحتوں کی قبا پہنے عرب ممالک کے سربراہان نے اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا یے۔ امریکہ نے افغانستان، عراق اور لیبیا کا تورا بورا بنا کر رکھ دیا۔ خوفزدہ عراقی جرنیل اور پیپلز گارڈ امریکی فوج کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔ صدام اور اس کے بیٹوں کا وہی حشر ہوا جو بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کا ہوا تھا۔ لیبیا کے ساتھ جنگ کے نتائج بھی عراق جیسے ہی نکلے۔ کرنل قذافی اور اس کا خاندان عبرت کا نشان بنا دیا گیا اور اب اسرائیل نے غزہ کو تباہ و برباد اور لہو لہان کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیا اسرائیل کے خلاف زبانی جمع خرچ تو کر رہی ہے مگر عرب اور دیگر مسلمان ممالک تو یہ تکلف بھی گوارا نہیں کر رہے۔ بس کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ 

جو عوامل جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کی شکست کی وجہ بنے تھے، کم و بیش وہی عوامل افغانستان، عراق، لیبیا اور فلسطین پر جارحیت کی وجہ بنے ہیں۔ وار ٹیکنالوجی کا جو فرق جنگ پلاسی میں تھا، سقوطِ افغانستان، عراق اور لیبیا میں وہ فرق پہلے سے کہیں زیادہ ہو گیا ہے۔ مسلم اور غیر مسلم اقوام کے درمیان ٹیکنالوجی یہ فرق پہلے سے کہیں زیادہ ہو جانا، مسلمان قوم اور مسلم حکمرانوں کے لئے لمحہء￿  فکریہ ہے.

مزیدخبریں