کوئی نہیں جانتا کہ ملک میں سیاسی ،معاشی، عدم استحکام کب اور کیسے ختم ہوگا حکومت کس طرح عوامی ریلیف کی راہ نکالے گی، آ ئی۔ ایم۔ ایف سے جان چھوٹ بھی سکے گی کہ نہیں، گوادر اور سی پیک جیسے تقدیر بدل منصوبوں سے ،،ہم اور آ پ،، فیضیاب بھی ہو سکیں گے یا نہیں، آ ج ہر پاکستانی ایک لاکھ 80 ہزار سے زیادہ کا پیدائشی طور پر مقروض ہے ،مستقبل میں مزید اضافے کے خدشات موجود ہیں، حکومتیں آ تی اور جاتی رہتی ہیں نہ الزامات میں کمی، نہ کرپشن اور لوٹ مار کم ہوتی ہے اور نہ ہی حکومتی اخراجات کو قابل برداشت بنایا جاتا ہے پہلے حکمران دو پارٹیوں کے مسلط تھے اب تیسری پارٹی بھی آ گئی ہے معاملات بیلنس پھر بھی نہیں ہو سکے، حکومت جمہوری ہو کہ آ مرا نہ ہو، میری ہو یا تیری، دعویٰ قوم کا عظیم مفاد اور کام صرف ایسے کہ ذاتی مفادات اور خزانوں کو بھرا جا سکے، ہر حکمران کا نعرہ قومی خزانہ خالی، لوٹ مار اور کرپشن کے ریکارڈ ،چوروں لیٹروں کا ہوگا احتساب، یقینا ہر کلمہ گو ہی نہیں، پاکستان کا ہر فرد چور بازاری کے خاتمے کے لیے جزا و سزا کا نظام چاہتا ہے لیکن قومی بدقسمتی کسی جمہوری حکومت نے بھی کوئی راستہ نہیں نکالا ،ریاست مدینہ کے دعویدار بھی پہلے آ مر زبردستی کے صدر پرویز مشرف کی نیب سے متاثر ہوئے تالیاں بجائیں، سابق حکمرانوں کی پکڑ، دھکڑ اور جکڑ پر قہقہے لگاتے اس خبر سے بے خبر رہے کہ کل خود بھی اسی کے جال میں پھنس جائیں گے، نہ اصلاحات کیں اور نہ ہی ترامیم اس لیے کہ اقتدار میں تو سب اچھا ہی ہوتا ہے لہذا پارلیمنٹ کو بھی لونڈی ہی سمجھا گیا۔من مرضی کے بل، قراردادیں اور آرڈیننس جاری ہوتے رہے بلکہ کابینہ بھی ایک اشارے پر ،،بند لفافے،، کے معاملات بھی ایجنڈے کے بغیر منظور کرتی رہی اقتدار کی طاقت منہ زور ہوتی ہے جب تک ہاں میں ہاں ملائی جائے،، سپہ سالار،، قوم کا باپ،، ورنہ چوکیدار ،بس ایسا ہی نام نہاد مدینہ کی ریاست میں ہوا ،فورسز کے اہم ادارے نے اپنے تنظیمی معاملات میں چھیڑ چھاڑ پر روک ٹوک کی تو مرشد اعظم کی سانس اکھڑ گئی اور وفادار بے وفا ہو گئے پھر قوم نے میر صادق اور میر جعفر کی تکرار ہی نہیں سنی بلکہ ذمہ داروں کو ،،ڈرٹی ہیری،، بھی کہا گیا گر ج چمک کے بعد سیاسی موسم بدلہ تو حالات بدلے، چہرے بدلے، اپنے پرائے ہو گئے آ سمانی مخلوق نے بھی ہاتھ کھینچ لیا بلکہ طاقتوروں نے،، ھانکا،، بھی لگا دیا پارلیمنٹ کا توازن بگڑ گیا اور پھر سب نے دیکھا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اکثریت، اقلیت میں تبدیل ہو گئی اور پارلیمنٹ کے ذریعے اقتدار تبدیل ہو گیا جمہوریت میں اگر ایسا ہو جاتا کہ صاحب اقتدار اپوزیشن میں بیٹھ جاتے تو آ ج صورتحال مختلف ہوتی ہے لیکن مرشد اعظم کو ایسے نادان دوستوں نے گھیرا کہ پہلے قومی اسمبلی سے استعفے ہوئے اور پھر پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی بھی ٹوٹ گئی،، تڑک کر کے،، یعنی بے قدروں کی یاری میں۔۔۔۔
میں اور میرے جیسے ان تمام بحراانوں کا حل پارلیمنٹ کے ذریعے چاہتے ہیں یہی جمہوریت اور آ مریت کا واضح فرق ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا کوئی رواج نہیں ،76 سالوں میں جتنے الیکشن ہوئے ایک کے سوا سب متنازعہ اور جو غیر جانبدار تھا اس کا نتیجہ بھی سانحہ بن گیا 2013 کے الیکشن میں برسر اقتدار مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی ،جے۔یو۔ آ ئی تحریک انصاف سب کے سب دھاندلی کا شور مچا رہے تھے۔ 2018 میں بھی یہی واویلا دیکھنے کو ملا دور حاضر میں فارم 45 اور 47 کا تماشہ موجود ہے حالات بتا رہے ہیں یہ بھی سب لڑائی جھگڑا ماضی کی طرح بے سود ثابت ہوگا حقیقی بلند و بالا ادارہ آئین ساز پارلیمنٹ ھے بحرانوں نے اسے جگا دیا ہے مخصوص نشستوں کا اکثریتی فیصلہ عمران داروں اور مرشد زادوں کے لیے منفرد اور اہم ترین تھا لیکن یہ بات زبان زد عام تھی کہ بھارت اور آ سٹریلیا کے میچ میں افغانستان کیسے جیت گیا؟ کیونکہ تحریک انصاف محض تماشائی تھی۔
سابق وزیراعظم کی،، یوٹرن،، پالیسی عروج پر ہے ،9 مئی کے اعترافی بیان کی تشریح بھی وہ اپنی مرضی کی کر رہے ہیں لیکن مقدمات اور گرفتاریاں مرشد اور مرشد اعظم کے لیے پریشان کن ہیں،، سونے پہ سہاگہ،، ڈیجیٹل دہشت گردی کے خلاف جاری مہم ہے روف حسن اور احمد وقاص جیسے ذمہ دار اپنی اپنی ’’طوطا کہانی،، بھی روانی سے سنا رہے ہیں۔9 مئی کے سلسلے میں قومی اور عوامی معافی کا مطالبہ دونوں جانب سے ہے اس کا مطلب ہے غلطی تسلیم نہیں کی جائے گی پھر ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے احتجاج ,دھرنا, مظاہرے اور بھوک ہڑتال سب کچھ چھوڑ کر ہر انداز پارلیمنٹ کے اندر اپنایا جائے,, پارلیمنٹ جاگ گئی ہے ,,تو اس کا فائدہ اپوزیشن اپنے مثبت کردار سے اٹھا لے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے کیونکہ یہ بات پلے باندھ لیں ’’موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں‘‘ مملکت میں بدامنی اور عدم استحکام کسی سے پوشیدہ نہیں ,عوامی ریلیف کے لیے’’ گڈ گورننس اور سرمایہ کاری‘‘کے لیے پرامن حالات لیکن یہ دونوں معاملات خیبر پختونخوا میں زیادہ خراب ہیں صوبہ خسارے میں اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے ایسے میں نئی نسل کے لیے یونیورسٹیاں بنانے کی بجائے فروخت کرنے کا فیصلہ مشکل ترین ہے پارلیمنٹ جاگ گئی ہے وہاں جائیں، ہر مقدمہ پارلیمنٹ میں لڑیں عدالتی معاملات تو برسوں میں بھی وہ حل نہیں کر سکتے جو پارلیمنٹ, قائمہ کمیٹیوں اور اپوزیشن چیمبر میں فعال ہو کر حاصل کیا جا سکتا ہے مذاکرات مثبت ہوں تو مقدمات بھی ختم ہو سکتے ہیں اور عمران بشری بی بی کی رہائی بھی ہو سکتی ہے لیکن 9 مئی کا کانٹا تو گلے میں پھنسے گا اس کو نگلنے یا اس کو نکالنے کا بھی انتظام پارلیمنٹ کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے ورنہ پھر مشکلات ہی مشکلات نظر آ رہی ہیں اس لیے کہ موجودہ پارلیمنٹ اب جاگ چکی ہے بہت سی آ ئینی ترامیم بھی ہوں گی بل بھی آئیں گے قوانین بھی بنیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وقت ضرورت صدر مملکت آ صف علی زرداری کوئی آ رڈیننس بھی جاری کردیں۔