ملک کے ساتھ کھلواڑ کھیلنے کی ایک دردناک داستان جو کہ ہر آنے والے حکمرانوں نے رقم کی اور اسے ملکی معیشت اور ترقی کا نام دے کر ملکی صنعتوں اور اداروں کو تباہ و برباد کر کے اپنے من پسند افراد کو اونے پونے داموں بیچ دیا گیا ،صنعتوں کی نجکاری کرنے کے لئے جان بوجھ کر انہیں خسارے میں دکھا کر ملی بھگت سے اپنے پسندیدہ افراد کو سونپ دیا جاتا ہے، جب کہ مجوزہ صنعتیں اور ادارے خسارے میں نہیں ہوتے ، فروری 2004 ء میں جب ٹھٹہ سیمنٹ فیکٹری کونجی شعبہ کے حوالے کیا گیا ، فیکٹری اپنی صحیح حالت میں پیداوار دے رہی تھی اور وہی مزدور کام کر رہے تھے جو کہ نجکاری سے پہلے کر رہے تھے ، فرق صرف یہ پڑا کہ نجکاری کے بعد مزودوروں کو ملازمت کی ضمانت نہیں رہی ، اور نہ ہی وہ سہولیات ملیںجو ملک میں رائج لیبر قوانین کے تحت نجکاری سے قبل انہیں حاصل تھیں ، جب کہ نجی شعبہ سیمنٹ کی قیمتوں میں اضافہ کر کے کئی گنا زیادہ منافع کما رہا ہے ، لہذا اس نجکاری کا فائدہ نہ ملک اور نہ ہی مزدوروں کو حاصل ہوا بلکہ مالکان اپنے اثاثوں میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں ۔
نواز شریف حکومت کے پہلے دور میں سیمنٹ کارپوریشن کے اہم یونٹ ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری کی غیر شفاف نجکاری کی گئی تھی ، نجکاری کمیشن اور ایمپلائز یونین کے گٹھ جوڑ سے کے ڈی اے کے ٹھیکیدار سکندر جتوئی کو ایک بنگلے کی قیمت کے برابر سابق وزیر اعلیٰ سندھ غوث علی شاہ نے نواز دیا تھا جب کہ ذیل پاک کالونی 59 ایکڑ رقبہ پر محیط ہے ، اس فیکٹری کی سائیٹ کئی ہزار رقبے پر پھیلی ہوئی ہے ، سینکڑوں غیر قانونی طور پر فارغ کئے گئے مزدور اب بھی واجبات کی ادائیگی سے محروم ہیں ، سردست ایشیاء کی سب سے بڑی یہ فیکٹری ملکی معیشت میں اہم رول ادا کررہی تھی ، جبکہ ذیل پاک لیبر کالونی اور آفیسر کالونی میں ایک خوبصورت شہر کا سماں پیدا ہوتا تھا ، نجکاری کے بعد لیبر کالونی جھگیوں کی بستی بن کر رہ گئی ہے ، مزدور در بدر ملکی خزانے کو ٖغیر شفاف طریقے سے نجی شعبے میں دینے سے خطیر نقصان ہوا ۔
لاہور میں واقع پاکستان انجینئرنگ کمپنی المعروف پیکو جسے چوہدری محمد لطیف نے قیام پاکستان سے پہلے1932 ء میں ہندوستان میں قائم کیا تھا اور تقسیم ہند کے بعد لاہور پاکستان میں منتقل کر لیا ، آغاز میں کمپنی کا نام چوہدری محمد لطیف کے آبائی شہر بٹالہ کے نام سے بٹالہ انجینئرنگ کمپنی لمیٹڈ رکھا گیا تھا جو کہ بعد میں پاکستان انجینئرنگ کمپنی ( پیکو ) کے نام سے عروج پائی ، چوہدری محمد لطیف ایک پاکستانی نظریاتی صنعت کار تھے ، جو کہ پاکستانی صنعت کے بڑے ناموں میں سے ایک تھے ، ان کی فیکٹریوں کے بزنس ماڈل اور ان کے انتظامی اصولوں کے باقاعدہ نقشے بنوا کر چین جیسے ممالک فخر محسوس کرتے تھے ، چو این لائی ، شام کے بادشاہ حافظ الاسد اور تھائی لینڈ کے بادشاہ ان کی فیکٹری پیکو دیکھنے کے لئے لاہور آتے تھے ۔
1972 ء میں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے تمام صنعتی گروپ قومیالئے ، یوں ملک کے بڑے بڑے صنعتکار بھٹو کے ایک حکم سے فٹ پاتھ پر آگئے ، ایک ایک اینٹ رکھ کر ملکی معیشت کو دنیا کے سامنے ایک رول ماڈل بننے والی معروف صنعتیں زوال پذیر ہو گئیں ، پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن (پی آئی اے ) دنیا کی معروف اور تجربہ کار ایئر لائن ہونے کے ناطے اس وقت نجی کاری کے عمل سے گزاری جا رہی ہے ، جب کہ پی آئی اے نے دنیا کی موجودہ بہترین نمبر ون ایئر لائن ایمریٹس کے ابتدائی قیام عمل کے دوران تکنیکی اور انتظامی امور میں مدد فراہم کی تھی، اسکے علاوہ کئی عرب ممالک کو تکنیکی مدد کے علاوہ جہاز بھی لیز پر دیئے تھے ،پی آئی اے کا کویت پاکستان روٹ انتہائی منافع بخش تھا لیکن اس روٹ کو ضسارے میں دکھا کر بند کر دیا گیا اور دوسری ایئر لائنز کو کویت پاکستان روٹ فروخت کیا گیا موجودہ صوتحال کے تناظر میں کویت سے پاکستان کے روٹ پر نئی ایئر لائن آپریٹ کر رہی ہیں اور ان کی فلائٹس میں اضافہ بھی ہوا ہے ، اس صورتحال کو مدِ نظر رکھا جائے تو صرف پی آئی اے ہی اس روٹ پر خسارے میں کیسے تھی ، لمحہء فکریہ ۔
پاکستان اسٹیل ملز کراچی کا سویت یونین روس کے توسط سے قیام عمل میں آیا تھا ، ایک خطیر رقم سے حکومت پاکستان نے اس کی تعمیر کروائی اب اس ملکی اثاثے کو نجی مالکان کے حوالے کرنے اور اسے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ، گذشتہ ماہ سینیٹر عون عباس بپی کی زیر صدارت سینٹ کی قائمہ کمیٹی صنعت و پیداوار کے اجلاس میں انہوں نے وفاقی حکومت کی طرف سے پاکستان اسٹیل ملز کو بند کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا، جب کہ کراچی کونسل آن فارن ریلیشن کی پاک روس تعلقات کے بارے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران روسی قونصل جنرل وکٹرووچ نے پیشکش کی کہ روس اسٹیل ملز کی بحالی کے لئے مدد کرنے کو تیار ہے ، حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے سنجیدگی کی ضرورت ہے ، روسی قونصل جنرل کی مدد کی بحالی انتہائی خوش آئند ہے لیکن حکومت اور انتظامیہ کے بارے میں ان کے کلمات تشویشناک اور معنیٰ خیز ہیں ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اور نجکاری کمیشن ہر حال میں نجکاری کا عمل جاری رکھے گی ۔
سردست پاکستان اسٹیل ملز کے حصے بکھرے کئے جارہے ہیں جس کے تحت سندھ حکومت اسٹیل ملز چلانے کے لئے نیا پلانٹ قائم کرے گی ، اور اسے اسٹیل ملز کی زمین میں سے ساڑھے 4ہزار ایکڑ سپیشل اکنامک زونز کو لیز پر دیا جائے گا ، ملکی اثاثے کوڑیوں کے بھائو لٹانے سے ملکی معیشت خطرناک صورتحال سے دو چار ہو جائے گی ،حکومت بے بس اور نجی مالکان کی مرہون منت بن جائے گی ، ایسی منافع بخش ترقی کرتی صنعتوں کو خسارے کی اوڑھ میں زوال پذیر ہونے کے اسباب کو قوم کے سامنے لانا ہو گا ۔
٭…٭…٭
صنعتوں اور اداروں کا عروج و زوال
Aug 04, 2024