زکریا ساجد

گزشتہ دو تین ہفتوں میں کئی ایسی شخصیات خالق حقیقی سے جا ملیں جن کی جدائی کا داغ کبھی دھل نہیں سکے گا۔ افسوس اور تعجب اس بات پر ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے بانی و سربراہ جناب زکریا ساجد بک ہوم لاہور کے مالک رانا عبدالرحمن کی گمشدگی (پھر خودکشی؟؟) اور لاہور کے دانش ور، نظریہ پاکستان کے علمبر دار اور کئی کتابوں اور سفر ناموں کے مصنف میاں محمد ابراہیم طاہر کے سانحہ ارتحال کی خبریں اُردو اخبارات میں اول تو شائع نہیں ہوئیں اور اگر کسی اخبار میں شائع ہوئیں تونہایت غیر نمایاں طورپر البتہ زکریا ساجد صاحب کی رحلت کی خبر انگریزی اخبار ڈان کے صفحہ 2 پر ضرورشائع ہوئی۔ قارئین کو زکریا ساجد صاحب کے انتقال پُرملال کا جناب وسعت اللہ خان اور ڈاکٹر فاروق عادل کے کالموں سے پتہ چلا۔
اس کالم میںسب سے پہلے تذکرہ زکریا صاحب صاحب کا جو لاہور کے رہنے والے تھے۔ صحافت کا آغاز روزنامہ نوائے وقت کے پہلے نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے کیا۔ وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پنجاب میں جناب حمید نظامی کے دست راست رہے۔ وہ حکیم آفتاب احمد قرشی ، ارشاد احمد حقانی، عبدالعزیز خالد اور ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کے ہم عصر تھے۔ جب معروف صنعت کار سعید سہگل نے لاہورسے روزنامہ آفاق کا اجراء کیا تو نوائے وقت کا پورا ادارتی عملہ اچانک نوائے وقت چھوڑ کر آفاق میں چلا گیا۔ زکریا ساجد بھی ادارہ آفاق میں شمولیت کرنے والوں کے ہراول دستہ کے رکن تھے اور روزنامہ آفاق کے پہلے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے آفاق جب مشکلات کا شکار ہوا اور سہگل خاندان نے اسکے سر سے اپنا ہاتھ اٹھایا تو زکریا ساجد کراچی چلے گئے اور وہاں مختلف اخبارات میں قسمت آزمانے کے بعد کراچی یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کی بنا ڈالی اور اس شعبہ کے بانی چیئرمین کا اعزاز حاصل کیا۔ زکریا ساجد کی جناب مصطفی صادق سے بھی بہت دوستی رہی۔ جب انہوں نے انتخابات میں براہ راست حصہ لینے کی مولانا مودودی کی پالیسی سے ماچھی گوٹھ (رحیم یار خان) میں منعقدہ سالانہ اجتماع میں اختلاف کیا اور اس کی پاداش میں انہوں نے جماعت کے ترجمان روزنامہ تسنیم لاہور کی ادارت سے استعفیٰ دیا تو زکریا ساجد ان کی مدد کو آئے اور انہیں روزنامہ آفاق کے لائل پور ایڈیشن میں ملازمت دلائی اور وہ وہاں سب ایڈیٹر مقرر ہونے کے بعد ریذیڈنٹ ایڈیٹر بنے اور آفاق ہی میں مصطفی صادق نے مجھے سب ایڈیٹر/رپورٹر مقرر کیا جو بعدازاں ہفت روزہ وفاق اور روزنامہ وفاق کی صورت میں ہماری بائیس سالہ رفاقت کا باعث ہوا۔
مصطفی صادق اور ارشاد احمد حقانی سے ربط ضبط کے باعث میرا بھی زکریا ساجد صاحب سے قریبی تعلق رہا۔ وہ جب پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کے کراچی چیپٹرکے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مقرر ہوئے تو مجھے انہوں نے سنگاپور میں پریس انسٹی ٹیوٹ کی سطح کے ادارے کے زیر اہتمام سیمینار میں شرکت کے لئے منتخب کیا اور سنگاپور روانگی سے قبل کراچی میں میری پُوری رہنمائی کی اور علاقائی اخبارت کے کردار پر میرے انگریزی میں لکھے ہوئے مقالہ کی نوک پلک بھی سنواری جس کی وجہ سے میرا سنگاپور کا دورہ ایک خوش گوار تجربہ ثابت ہوا۔
جناب زکریا ساجد سے سینکڑوں نوجوانوں نے صحافت کی تعلیم حاصل کی۔ وہ جونہی کسی طالب علم کو داخلہ دیتے اس کی علمی استعداد کا اندازہ بھی لگا لیتے اور اسے کسی اخبار میں ملازمت دلانے کی دھن بھی ان پر سوار ہو جاتی۔ جو طالب علم مالی حالات کی کمزوری کے باعث فیس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے تھے وہ اپنی جیب سے اس کی فیس ادا کردیتے اور اس امر کا بھی اہتمام کرتے کہ کسی کو کانوں کان اس کی خبر نہ ہو۔ وسعت اللہ خان نے اپنے کالم میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کرکے ان کے مالی ایثار کی شہادت دی ہے۔ زکریا ساجد مجھ پر ہمیشہ مہربان رہے۔ میری ایک دو کتابوں پر انہوں نے تبصرہ بھی لکھا اور ایک کتاب پر تبصرہ کی استدعا کے جواب میں یہ مختصر جواب لکھا۔ میری بینائی ختم ہوگئی ہے اور قوت سماعت سے محروم ہوں ۔ اس لئے تبصرہ لکھنے سے معذور سمجھیں ۔
اب ذکر رانا عبدالرحمن کا وہ لاہور کے مشہور اشاعتی ادارے بُک ہوم کے مالک تھے۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں کتابوں کے ناشر اور تقسیم کار، لاہور کی علمی، ادبی اور تہذیبی زندگی کا جزو لاینفک۔ وہ 9 جولائی کو نماز فجر کے بعد معمول کی سیر کے لئے اپنے گھر سے نکلے، ان کے اہل خانہ اس وقت سو رہے تھے۔ ان کے رفیق کار محمد سرور حسب معمول دکان پر لے جانے کے لئے ان کے گھر آئے تو پتہ چلا کہ وہ سیر کے لئے صبح ہی گھر سے چلے گئے تھے۔ اس کے بعد ان کی تلاش شروع ہوئی مگر ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اگلے روز کچھ لوگوں کا فیصل آباد کے قریب ستیانہ بنگلہ کے قریب نہر سے گزر ہوا تو انہوں نے نہر کنارے قومی شناختی کارڈ، جوتے اور ٹیلی فون نمبر والی ایک پرچی دیکھی جس سے قیاس کیا گیا کہ نہر میں کودنے والے رانا عبدالرحمن تھے مگر اس بات کا کوئی سراغ نہیں ملا کہ وہ لاہور سے ستیانہ کیسے پہنچ گئے۔ البتہ ستیانہ کے قریب ہی ان کا گائوں بھی تھا یہ پُراسرار موت کئی سوالات اپنے پیچھے چھوڑ گئی ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور ایک علم دوست اورادب دوست سے محروم ہوگیا۔
تیسری شخصیت ہیں میاں محمد ابراہیم طاہر جو لائل پور (اب) فیصل آباد کے رہنے والے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے پر لاہور آگئے اور مشہور تجارتی فرم کنڈا والا میں اکائونٹنٹ اور پھر چیف اکائونٹنٹ بن گئے۔ اس ادارہ کی تحریک پر ہی امریکہ گئے اور پھر دنیا بھر میں گھومے اور کئی سفر نامے لکھے۔ ان کے سفر نامے جناب عنایت اللہ کے ماہنامہ حکایت اور نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں چھپے اور پھر کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ شلوار قمیض، اچکن، واسکٹ اور جناح کیپ سے اُن کی شخصیت آراستہ رہی، نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ہر اجتماع میں اہتمام سے شریک ہوتے تھے۔ وہ میرے 1956 ء سے دوست چلے آرہے تھے جب ہم روزنامہ غریب کے بچوں کے صفحہ کے لکھاری تھے اور ’’بزم غریب‘‘ کے نام سے ادبی تقریبات کرتے تھے اور ممتاز ترقی پسند شاعر احمد ریاض کی ہمیں سرپرستی حاصل رہی۔

ای پیپر دی نیشن