محمود اچکزئی کپتان کی طرف سے سیاسی جماعتوں سے رابطے کرنے لگے
سابقہ حکومت کے اتحادی اور اب مخالف بلوچستان کے (بزرگ کہیں یا نہ کہیں آپ کی مرضی) سیاستدان محمود خان اچکزئی کو بالآخر ایک زبردست مصروفیت مل گئی ہے۔ اب چاہے آمدنی ٹکے کی نہ ہو ان کو سر کھجانے کی بھی حقیقت میں فرصت نہیں۔ وہ پہلے ہی پی ٹی آئی، جے یو آئی اور دیگر چند جماعتوں کے ساتھ مل کر تحفظ آئین کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ جابجا جلسے کرتے دیکھے جا رہے ہیں۔ انھیں بھی الیکشن کے حوالے سے بہت دکھ ہیں۔ جن میں ان کے امیدواروں کا بلوچستان میں ہارنا بھی ان کے لیے صدمے سے کم نہیں۔ وہ نجانے کس طرح یہ کڑوی گولی برداشت کر رہے ہیں۔ اب سیاسی میدان میں پی ٹی آئی کی دشت لیلیٰ میں تنہا سرگردانی دیکھ کر پی ٹی آئی کے بانی نے اپنی جیل یاترا کی تنہائی کو دور کرنے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے جو گوہر آبدار چنا ہے وہ محمود اچکزئی ہیں۔ فوج کی طرف سے بار بار منتوں ترلوں کے بعد بھی جب
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں
والی حالت نہیں بدلی تو اب بانی کے کہنے پر محمود اچکزئی جلد ہی صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سے بھی ملاقات کریں گے۔ اب معلوم نہیں بے ثمر درختوں سے کیا حاصل ہو گا۔ کیونکہ کپتان پہلے کہتے تھے میں ان دونوں کو منہ نہیں لگاؤں گا مگر اب شاید منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اس پر بھی راضی ہو گئے ہیں۔ کہیں یہ رجعت قہقہری تو نہیں۔ بہرحال چلو اس بہانے اچکزئی کو پی ٹی آئی والوں نے پھنسا لیا اور کم از کم فوری طور پر وہ حکومتی اتحاد میں جانے سے رہے۔ نئی صف صف بندی استوار کرنے میں کافی عرصہ مصروف رہیں گے کیونکہ حکمران کسی قیدی کی فرمائش پر حکومت چھوڑنے سے تو رہے جس کے پاس اب کوئی سہارا بھی نہیں۔
٭٭٭٭٭
پہلے کون انڈا یا مرغی کی بحث میں دوست کو قتل کر دیا
لو جی اس ظالمانہ احمقانہ عاجلانہ بحث نے ایک اور نوجوان کو وہاں پہنچا دیا جہاں اسے اب یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ پہلے انڈا آیا تھا یا مرغی کیونکہ اب اسے خود یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ وہ پہلے آیابھی تھا یا نہیں۔ اس قسم کی بے وقوفانہ بحث مباحثے سے آج تک کچھ بھی معلوم نہ ہو سکا۔ عقلمند لوگ اس قسم کے بحث مباحثوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے روزانہ ناشتے میں انڈا اور کھانے میں مرغی پسند کرتے ہیں۔ یوں ان کی صحت اور دماغی حالت دونوں اچھی رہتی ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ اس کا پتا کرنے میں سر کھپاتے ہیں کہ پہلے کون ہوا۔ وہ اس طرح اپنی جان سے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں دو دوستوں کے درمیان یہی مسئلہ وجہ تکرار بن گیا اور بات یہاں تک پہنچی کے ایک نے دوسرے دوست کو چاقو کے وار کر کے مار ڈالا یوں اب انڈا بھی گیا اور مرغی بھی ایک دنیا سے گیا دوسرا جیل جا پہنچا مگر یہ سوال ابھی تک حل طلب ہے کہ پہلے کون آیا۔ اسی لیے ہمارے ہاں کیا خوب کہا جاتا ہے کہ بھائی آپ آم کھائیں پیڑ مت گنیں۔ جو لوگ آم کھانے کی بجائے پیڑ گننے پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ آم سے بھی جاتے ہیں اور صرف وقت ضائع کرتے ہیں۔ جب معاشرے میں ایسے ارسطو زماں اور افلاطون ثانی زیادہ ہو جائیں اور لایعنی باتوں پر الجھتے پھرتے ہوں تو پھر وہاں علم کی اور عقل کی بجائے جذبات اور جہالت کا راج ہوتا ہے۔ باشعور معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔
٭٭٭٭٭
اسرائیل کی غنڈا گردی پر مسلم امہ کی خاموشی
اب کون ہے جو اسرائیل کا ہاتھ روکے گا۔ وہ علاقے کا وہ غنڈا بن چکا ہے کہ اپنے کن ٹٹوں کے ساتھ مل کر جہاں چاہے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ عالمی چودھری امریکا جس طرح کھل کر اس کی حمایت کر رہا اس پر ہاتھ ڈالنے والوں کے ہاتھ توڑنے کی بات کرتا ہے۔ اس کے دفاع کے لیے جی جان سے حاضر ہے۔ اس کے بعد تو واقعی اب بات قابلِ غور ہے کہ اسرائیل کی ان بدمعاشیوں پر اب کن روک لگا سکتا ہے۔کوئی محلہ کوئی گھرکوئی پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں۔ اس کی دیدہ دلیری دیکھیں وہ بڑے فخر سے اپنے جارحانہ حملوں کا جواز یہ دے رہا ہے کہ وہ بتانا چاہتا ہے کہ کسی ملک کی سکیورٹی اس کے نزدیک کاغذ کے پرزے سے زیادہ اہم نہیں۔ وہ جہاں چاہے کسی کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ کوئی روک سکتا ہے تو روک کر دکھائے۔
اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس کا سرپرست بڑے فخر سے دعویٰ کر رہا ہے کہ ہم اس کے ساتھ ہیں جس کسی نے ہمارے اس پالتو غنڈے پر حملہ کیا تو ہم اس کا دفاع کریں گے۔ یہ ہوتی ہے چوری اور سینہ زوری۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ عالمی ضمیر بیدار ہو مگر تمام بڑی بڑی طاقتیں سوائے چین اور روس کے اسرائیل کی درپردہ حمایتیں ہیں۔ وہ بھی امریکا کے ساتھ نظر آ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ ہو یا انسانی حقوق کے ادارے ان کے اختیار میں کچھ نہیں وہ صرف مذمت کرتے ہیں اور پھر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی حالت بھی اس کبوتر کی طرح ہے جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بلی غائب ہو گئی ہے۔غزہ کی تباہی کے بعد اب تہران میں حماس کے سربراہ کی شہادت کے بعد کیا اسلامی ممالک کے سربراہان کوئی سخت مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں گے یا اسی طرح یکے بعد دیگرے اپنے بہادوں کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ کر چپ رہیں گے۔ ان شہادتوں کا بدلہ کوئی لے نہیں سکتا ی تو کم از کم اس کے جواب میں مسلم امہ مل کر تجارتی ، سماجی ، اقتصادی بائیکاٹ کا راستہ تو اپنا سکتے ہیں۔ کیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ کیا ہم اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
اطالوی خاتون باکسر مقابلے سے چند سیکنڈ بعد دستبردار ، مخالف باکسر عورت نہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ اگر واقعی اطالوی باکسر درست کہہ رہی ہے ان کا یہ دعویٰ واقعی درست ہے کہ مردانہ صفت کی حامل اس باکسر کو کس طرح الجیریا کی حکومت نے اولمپکس میں عورتوں کی باکسنگ کے لیے منتخب کیا۔ اب چونکہ اطالوی باکسر مقابلے سے روتے ہوئے دہائیاں دیتی ہوئی دستبردار ہوئی۔ اس پر کیا فیصلہ ہوتا ہے جلد پتا چل جائے گا۔ فی الحال تو الجیریا کی ایمان خلیف فاتح قرار دیدیا گیا ہے۔ اطالوی خاتون باکسر کے مطابق اس طرح کے زوردار مکے صرف مرد ہی مار سکتا ہے۔ کوئی خاتون اس طرح پنچ نہیں مار سکتی۔ ان کی مخالف فریق عورت نہیں خواجہ سرا ہے۔ اس بات کا علم ہمارے رؤف حسن اور پولیس والوں سے زیادہ کسے ہو گا کہ خواجہ سرا جب وحشی ہو جائیں دو بدو مقابلے پر اتر آئیں تو پھر ان کے مکے اور ٹھڈے خاصے جاندار ہوتے ہیں اور اچھا بھلا آدمی زخمی ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی کئی مردانہ حضرات خواجہ سراؤں کا روپ دھار کر سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں دو نمبر کام کرتے ہیں اور حسب ضرورت چوری، ڈکیتی اور قتل سے بھی باز نہیں آتے۔ اصل خواجہ سرا کم از کم ایسی مردانہ حرکات نہیں کر سکتے۔ وہ تو زیادہ سے زیادہ ہائے اللہ اف باجی کہتے ہوئے ہاتھوں سے تالیاں بجا کر ہی مانگتے ہیں۔ اب یہ کون معلوم کرتا پھرے کہ مانگنے والا خواجہ سرا ہے یا کوئی مردانہ بھائی ہے۔ اب میک اپ کے تلے کیا معلوم کوئی ظالم ڈاکو ہے یا چور یا قاتل۔ اس کا علم کوئی کیمرہ بھی نہیں لگا سکتا۔ پولیس کا بھرکس نکالنے والے بغیر میک اپ تھے دھر لیے گئے۔رؤف حسن والے ابھی تک نا معلوم ہیں۔
٭٭٭٭٭