خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں ججز کے قافلے پر حملے میں سکواڈ میں شامل محافظ پولیس کے دواہل کار شہید ہو گئے۔ ڈیرا اسماعیل خان اور ٹانک کے سنگم پر ایڈیشنل جج ٹانک حسنین، ایڈیشنل سیشن جج ساؤتھ اور سینئر سول جج مہ جبین کے قافلے پر حملہ کیا گیا۔ حملے میں تینوں ججز محفوظ رہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواکے کئی علاقوں میں دہشت گردی میں تیزی سے اضافہ ہواہے۔ ڈیرا اسماعیل خان میں تو پے در پہ واقعات ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی میں سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں چوکیوں اور دفاعی تنصیبات پر حملے کیے جاتے ہیں۔ مذکورہ حملہ فاضل ججوں پر کیا گیا۔ پولیس کے اہلکاروں نے اپنی جانوں پر کھیل کر ججوں کی حفاظت کی۔ جج اس ہولناک حملے میں محفوظ رہے۔ بہرحال ان کی سکیورٹی فول پروف بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی حوالے سے چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کی زیر صدارت ججز کی سکیورٹی سے متعلق اجلاس ہوا جس میں سکیورٹی کے حوالے سے جائزہ لیا گیا۔ ادھر، وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ ملک بھر میں گزشتہ 16 ماہ کے دوران دہشت گردوں کے 2075 واقعات میں 1215 افراد شہید اور 2600 زخمی ہوئے۔ وزارت داخلہ کے مطابق، ملک میں امن و امان کی صورتحال بگڑ رہی ہے، افغانستان سے اتحادی فوج کی واپسی پر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا، دہشت گردی کے واقعات میں سرحد پار سے معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اپنی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) دہشت گردوں کا سب سے بڑا گروپ ہے جو پاکستان میں دہشت گردی میں بھی ملوث ہے۔ پاکستان اس سے پہلے بھی ٹی ٹی پی کی ملک میں دہشت گردی سے آگاہ تھا۔ اس حوالے سے طالبان حکومت کو کئی بار خبردار بھی کیا گیا اور ایک مرتبہ تو افغانستان کے اندر داخل ہو کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ پاکستان کے پاس اس کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث عناصر کے ٹھکانوں کو جہاں کہیں بھی ہیں نشانہ بنائے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جب یہ کہہ دیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں حملوں میں ملوث ہے اور اس کی پشت پناہی افغان حکومت کرتی ہے تو پھر اقوام متحدہ ایسی حکومت کے خلاف وہی کچھ کیوں نہیں کرتی جو نائن الیون کے بعد امریکا کے مطالبات پر کیا گیا تھا۔