کہانی ایک ماں کی

( امریکا سے مومنہ چیمہ سکالر شپ لینے والی ایک امریکی طالبہ کی لکھی تحریر کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے )
یہ کہانی ہے ایک اس ماں کی جس نے ایک ایسی بیٹی کو جنم دیا جس نے ایک عام ماں کو ’ام مومنہ‘ بنا دیا۔1985ء لاہورسی ایم ایچ ہسپتال میں ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ والد کیپٹن ڈاکٹر تھا۔ پھر یہ فیملی اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا شفٹ ہوجاتی ہے۔ والد امریکا کے نامور ہسپتال جان ہوپکِنسن سے میڈیکل کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرتا ہے اور یہ لڑکی جب آٹھ برس کی ہوتی ہے اپنے دو چھوٹے بھائیوں اور والدین سمیت سعودی عرب شفٹ ہو جاتی ہے اورچند برس بعد یہ فیملی لاہور منتقل ہو جاتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کا خواب سجائے یہ لڑکی اپنی فیملی سمیت واپس امریکا منتقل ہو جاتی ہے۔امریکا کے ہائی سکول اور تقرری مقابلوں میں ٹاپ کرنے والی یہ لڑکی والد کی خواہش پر میڈیکل کالج میں داخلہ بھی لے لیتی ہے مگر وہ ڈاکٹر بننا نہیں چاہتی لہٰذااس نے امریکا کی معروف یونیورسٹی ڈیوک سے بی اے اور ہاروڈ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد وکالت کا شعبہ کا انتخاب کر لیا اور نامور یونیورسٹی آف ورجینیا لا کالج میں داخلہ لے لیا۔
یہ پاکستانی طالبہ اس قدر ہونہار تھی کہ اس کے پروفیسرز اسے منصف کی کرسی پر بیٹھا دیکھتے تھے۔لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور لاء کے دوسرے سال کی یہ ہونہار طالبہ 10 جون 2011ء نیویارک میں ایک کار حادثے میں اللہ کو پیاری ہو جاتی ہے۔اس المناک سانحہ کے چند روز بعد اس طالبہ کے والد کو یونیورسٹیوں کے ڈین اور پروفیسروں کے فون کالز موصول ہوتے ہیں اور لڑکی کے والد ڈاکٹر محمد اختر چیمہ کو بتاتے ہیں کہ آپ کی بیٹی صرف آپ کا loss نہیں بلکہ پوری دنیا کا loss ہے۔ ہماری یونیورسٹی اس قابل اور رول ماڈل طالبہ کی یاد میں میموریل سکالرشپ پروگرام کیاعزاز کا اجرا کرنا چاہتی ہیں جو کہ یونیورسٹی کا یادگار اعزاز ہوتا ہے۔ اور یوں 2011 ء میں یونیورسٹی آف ورجینیا لا کالج کی جانب سے ’مومنہ چیمہ میموریل سکالرشپ‘کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ہارورڈ یونیورسٹی میں ’مومنہ چیمہ ٹریول گرانٹ‘ کا میموریل پروگرام کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جی ہاں اس قابل فخر لڑکی کا نام مومنہ چیمہ ہے۔امریکا میں واحد پاکستانی مسلم سٹوڈنٹ ہے جس کی یاد کو امریکا کی نامور درسگاہوں نے میموریل سکالرشپ کے اعزاز سے نواز رکھا ہے۔
قابل فخر بات یہ ہے کہ امریکا میں مومنہ چیمہ کا میموریل سکالرشپ فقط اسلامی لاء کے سٹوڈنٹس کو دیا جاتا ہے۔ اب تک متعدد سٹوڈنٹس اسلامی قانون کی ڈگریاں لے چکے ہیں ان میں جموں کشمیر کی طالبہ بھی شامل ہے جبکہ ہارورڈ یونیورسٹی سے بھی طلبہ پاکستان اردو اور اسلام پر ریسرچ پروگرام کرنے جاتے ہیں۔ یہی نہیں پاکستان سے بھی ہونہار لیکن مستحق طالبات امریکا ’مومنہ چیمہ ٹریول گرانٹ‘ پروگرام سے مستفید ہو رہی ہیں۔بلوچستان کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج کی ایک طالبہ بھی مومنہ چیمہ پروگرام کے تحت ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے بھی ایک طالبہ امریکا میں مومنہ چیمہ سکالر شپ سے مستفید ہو رہی ہے۔ علم و قابلیت کا یہ قابل فخر سفر امریکا تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ پاکستان کی مستحق طالبات کو اعلیٰ تعلیم مہیا کرنے کا یہ خواب مومنہ کی ماں کو پاکستان میں بھی نگر نگر لے جاتا ہے۔
مومنہ چیمہ سکالر شپ پروگرام کی پہلی شمع جون 2012ء پنجاب یونیورسٹی میں جلائی گئی اور اب ملک بھر کی درجنوں یونیورسٹیوں سے سینکڑوں طالبات مومنہ چیمہ سکالرشپ کے توسط سے پروفیشنل ڈگریاں لے رہی ہیں۔ تعلیمی خدمات کے ذریعہ ’وومن امپاورمنٹ‘ کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ غریب عوام کے لیے صاف پانی دوائی اور خوراک کے راشن کے بندوبست بھی مومنہ چیمہ نے شروع کر رکھے ہیں۔ اور یہ خدمات بلوچستان اور گلگت بلتستان کے پہاڑوں تک پہنچ چکی ہیں۔ سیلاب زدگان کو کمبل اور خوراک پہنچائی جاتی ہے۔ پہاڑوں میں ڈھائی سو فٹ گہری بورنگ سے کنویں کھدوائے جاتے ہیں۔ بچوں کا سکول قائم کیا گیا ہے۔ کلینک اور ایمبولینس چلائے جا رہے ہیں۔ امریکا میں بسنے والی ایک ماں جس کی جوان اکلوتی بیٹی اللہ نے واپس بلا لی وہ اب باقی زندگی اپنی بیٹی کے خوابوں کو تعبیر بنانے میں گزار رہی ہے۔ بیٹی خدمت انسانیت کا خواب آنکھوں میں سجائے امریکا کی نامور یونیورسٹی میں وکیل بن رہی تھی اور زندگی کا مشن انسانیت کی خدمت تھا بالخصوص پاکستان میں لڑکیوں کو پروفیشنل تعلیم دلانے کی بہت حامی تھی۔ ماں نے یہ مشن حقیقت بنا دیا۔بیٹی کی قبر کا دیا خدمت خلق کی شمع سے روشن کر دیا۔یہ کہانی ہے اس ماں کی جس نے بیٹی کی ناگہانی موت کو غم بنانے کی بجائے طاقت بنا لیا۔امریکا سے پاکستان کا سفر اس ماں کو عبادت اور جہاد اکبر محسوس ہوتا ہے۔ایک ماں نے مومنہ چیمہ فائونڈیشن کو امریکا یا پاکستان ایک مثال بنادیا۔

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

ای پیپر دی نیشن