اسرائیل کی طرف اسماعیل ہانیہ کی شہادت نے کم از کم امت مسلمہ کو مذمت کی حد تک تو متحد کیا ہے۔ اکثریت میں اسلامی ممالک نے اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی مسلمان رہنما کو شہید کیا گیا ہے اور نہ ہی یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم دنیا نے ایسے کسی بھی واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہو۔ کاش کہ اس مرتبہ مسلم دنیا اس قتل کا بدلہ لے اور خون بہانے والوں کا ایسا احتساب کرے کہ دوبارہ کسی کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہو لیکن بدقسمتی ہے کہ کہنے کی حد تک یہ بہت آسان ہے لیکن آج تک ایسا ہوا نہیں ہے۔ دہائیوں سے دنیا میں بالخصوص مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ یہاں آزادی کے لیے کئی بہادر انسانوں نے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ کئی نامی گرامی رہنماؤں نے بھی جام شہادت نوش کیا لیکن مسلم امہ کی طرف سے کبھی ایسا جواب نہیں دیا گیا کہ یہودیوں اور کافروں کو سبق حاصل ہو، ایسے اتحاد کا عملی مظاہرہ نہیں کیا گیا جس سے اسلام دشمنوں کے دلوں پر ہیبت طاری ہو، ایسا جواب نہیں دیا گیا کہ بیت المقدس آزاد ہو، ایسا جواب نہیں دیا گیا کہ کشمیر کے مسلمان آزاد فضاؤں میں سانس لے سکیں۔ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد یہ امید تو ضرور کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں مسلم امہ متحد ہو کر اسلام دشمنوں کا مقابلہ کرے گی۔ ہم نے اسماعیل ہانیہ کی نماز جنازہ کے مناظر تو دیکھے ہیں اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم کب تک ایسے جنازوں کو اٹھاتے رہیں گے۔ قطر کے دارالحکومت دوحا میں نماز جنازہ میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کے ساتھ ساتھ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد اپنے والد شیخ حمد بن خلیفہ کے ساتھ اسماعیل ہانیہ کی نمازہ جنازہ میں شرکت کے لیے آئے۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے اسماعیل ہانیہ کی نماز جنازہ میں شرکت کی تو اس موقعہ پر انہوں نے روایتی طور پر عرب سر پر اوڑھے جانے والے رومال کو باندھنے کے لیے عقال کے بغیر شرکت کی۔ عقال اس سیاہ ڈوری کو کہتے ہیں جسے دوہرا کرکے سر پر اوڑھے جانے والے رومال کو جگہ پر رکھنے کے لیے پہنا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کافی دنوں سے یہ بات ہو رہی ہے کہ امیر قطر عقال کے بغیر نماز جنازہ میں شریک کیوں ہوئے۔ مجھے اس لیے امیر قطر کا یہ عمل پسند آیا ہے کیونکہ عرب روایات میں اس کا مطلب بہت واضح ہے۔ عرب روایات کچھ یوں ہیں کہ اگر کوئی سوگوار شخص جنازے کے دوران سر سے عقال اتار دے تو اس کا مطلب یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ اس انتقال کو اپنا ذاتی نقصان سمجھتا ہے۔ کاش کہ مسلم امہ اسماعیل ہانیہ کے قتل کو ذاتی نقصان سمجھے، کاش کہ امت مسلمہ کی قیادت اسماعیل ہانیہ کے قتل کو ذاتی نقصان سمجھتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دے۔ ہمیں اس معاملے میں بالکل مختلف سوچ یا اسرائیلی افواج سے کوئی اچھی امید رکھنی چاہیے وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں انہوں نے باتوں یا مذاکرات سے ماننا نہیں ہے، نہ ہی وہ اس کام میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے۔ اسرائیل اور بھارت کا علاج ایک ہی دوا سے ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے ظالم اور غاصب حکمرانوں سے ان کی زبان میں بات کی جائے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا تو ان کی عقل ٹھکانے آئے گی اس سے پہلے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر کوئی نرمی ہو گی یا پھر کشمیر کے مسلمانوں پر بھارتی فوج نرمی کرے گی تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔ اسرائیل تو ان ظالمانہ کارروائیوں کے بعد بھی بدمست ہے۔
اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے سوگ میں تل ابیب میں قائم ترک سفارت خانے پر جھنڈا سرنگوں کرنے پر اسرائیلی وزیر کو بہت تکلیف پہنچی ہے۔ ترکیہ کے اس عمل پر اسرائیلی وزیر برہم ہوئے ہیں انہوں نے ترک سفیر کو مشورہ دیا ہے کہ ترکیہ کا جھنڈا مکمل طور پر اتار کر اپنے ملک واپس چلے جائیں۔ ظالم اسرائیلی وزیر نے اپنے وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے ترک سفیر کو بے دخل کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ جنہیں اس ظلم کے بعد بھی شرمندگی نہیں ہے انہیں کیسے زبانی بات سمجھ آ سکتی ہے۔ اسرائیل کی دہشت گردی یہیں رک نہیں جاتی بلکہ ان ظالموں نے تو مسجد اقصٰی کے امام کو بھی نہیں بخشا۔ شہید اسماعیل ہانیہ کی تعریف پر پہلے مسجد اقصٰی کے امام کو گرفتار کیا گیا اور پھر مسجد اقصٰی کے امام پر ہی بیت المقدس میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ کیا ظلم ہے کہ شیخ عکرمہ صابری پر آٹھ اگست تک مسجد اقصٰی میں داخلے کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ امریکہ اسرائیل کی مکمل سرپرستی کر رہا ہے وہ ہر لحاظ سے اس ظلم میں برابر کا شریک ہے، اسرائیل کو ہر مشکل وقت میں امریکہ نے سہارا دیا ہے۔ اتنے بڑے انسانی سانحے اور مسلسل ظلم کے بعد بھی امریکہ کی حمایت ظالم اسرائیل کے لیے ہے۔ جب کہ غزہ میں آنے والی تباہی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سنٹر کی معلومات نام نہاد مہذب ممالک کے آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیٹیلائٹ سینٹر کے تخمینے کے مطابق غزہ کی دو تہائی عمارتیں مکمل تباہ یا شدید متاثر ہو چکی ہیں جن کا ملبہ اٹھانے میں پندرہ سے بیس سال لگ سکتے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں چار کروڑ بیس لاکھ ٹن ملبہ جمع ہو چکا ہے۔
یاد رہے کہ اپریل میں یو این مائن ایکشن ایجنسی نے تین کروڑ ستر لاکھ ٹن ملبہ اٹھانے کاوقت چودہ سال بتایا تھا اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ ملبہ دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیئیس تک کی تباہی سے چودہ گنا زائد ہے۔
دعا ہے کہ اللہ مسلمانوں قرآن کریم کی آیت مبارکہ
واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ ایران بدلہ لینا چاہتا اسے بدلہ لینے کی طاقت دے، جو ممالک ایران کا ساتھ دینا چاہتے ہیں انہیں ساتھ دینے کی توفیق عطاء فرمائے۔ ہمیں فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے والا بنائے۔ آمین
آخر میں ابن انشاء کا کلام
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر م ں جی کو لگانا کا
وحشی کو سکوں سیکا مطلب، جوگی کا نگر مں ٹھکانا کا
اس دل کے دردہ دامن کو، دکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھد ہوئے، اس جھولی کا پھلانا کا
شب بتی ، چاند بھی ڈوب چلا ، زنجر پڑی دروازے میں
کوں در گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانا کا
پھر ہجر کی لمبی رات ماں، سنجوگ کی تو ہی اک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کا گھبرانا کا
اس روز جو اْن کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا
اس حْسن کے سچے موتی کو ہم دکھ سکں پر چْھو نہ سکوں
جسے دکھ سکیں پر چْھو نہ سکیں وہ دولت کا وہ خزانہ کا
اس کو بھی جلا دْکھتے ہوئے مَن، اک شْعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دں، کوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دوانہ کا