وائلڈ لائف کا پوسٹ مارٹم

Aug 04, 2024

شہباز اکمل جندران

جنگلی حیات کو بچانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا انسانی حیات کے تحفظ کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جنگلی حیات کی بقاء و حفاظت کے لیے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ جنگلی حیات کو غیر قانونی شکار اور بیمار ہونے کی صورت میں بروقت اور مناسب علاج کر کے بچایا جا سکے۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ یہ ڈیپارٹمنٹ حقیقی معنوں میں اپنے فرائض انجام نہیں دے پارہااور اسی محکمے کے چھوٹے بڑے افسران کی غفلت اور لاپرواہی کے سبب سال 2019سے اب تک ساڑھے چار برسوں کے دوران صوبے کے وائلڈ لائف پارکس،سفاری پارک اور چڑیا گھر نایاب جانوروں کے قبرستان بننے لگے ہیں ۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران لاہور، راولپنڈی، بہاولپور، وہاڑی، مری، بہاولنگراور پنجاب کے دیگر شہروں میں واقع چڑیا گھروں ،زو سفاری اور وائلڈ لائف پارکس میں مجموعی طورپر 237شیر، چیتے،ریچھ، ہرن،بندر،بھڑیئے، اڑیال، مگرمچھ،چنکارا ،لنگوراور دیگر وائلڈ لائف کی اموات واقع ہوچکی ہیں
 بہاولنگر، وہاڑی سمیت دیگر علاقوں میں جانوروں کی اموات کی بڑی وجہ سانپوں کا کاٹنا بیان کی جاتی ہے۔ دیگر وجوہات میں جانوروں کی آپسی لڑائی، دل، گردوں کا فیل ہونا اور دیگر جسمانی عوارض بیان کئیے جاتے ہیں
کہنے کو تو ہر مرنے والے جانور کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے لیکن پوسٹ مارٹم کے نام پر زیادہ تر خانہ پری کی جاتی ہے۔ جانوروں کے پوسٹ مارٹم کا جو اصول ہے اُس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس پوسٹ مارٹم کے لیے وائلڈ لائف سپیشلسٹ ویٹرنری ڈاکٹر موجود نہیں۔ لاہور کے سفاری پارک اور چڑیا گھر میں مرنے والے جانوروں کو پوسٹ مارٹم کی غرض سے یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز (UVAS)میں بھیجا جاتا ہے جبکہ دیگر شہروں میں جانوروں کی ڈیڈ باڈیز عام ہسپتالوں میں یا پھر لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے مقامی سنٹرز پر بھیج دی جاتی ہیں جہاں معمول کے مطابق ڈی این اے، پی سی آر اور دیگر تشخیصی ٹیسٹوں کے بغیر صرف اندازے کی بنیاد پر پوسٹ مارٹم رپورٹس تیار کی جاتی ہیں۔ جیسے 31اکتوبر 2020ء کو بہاولپور چڑیا گھر میں ہلاک ہونے و الے دو مگر مچھوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں جنس کے کالم میں نامعلوم لکھا گیا۔یعنی مگر مچھ میل تھے یا فی میل، کسی کو معلوم نہیں۔ جبکہ وجہ موت بیان کرتے ہوئے تحریر کیا گیا کہ لڑائی کے بعد دونوں مگر مچھ سردی کی زیادتی کی وجہ سے مر گئے۔یوں تومگر مچھ پانی میں رہنے والا جاندار ہے لیکن ہوسکتا ہے ان کی موت زیادہ سردی لگنے کی وجہ سے واقع ہوئی ہو لیکن انہیں گرم ماحول فراہم کرنا کس کی ذمہ داری تھی اس پر بھی سوچنا ہوگا۔اور اگر جنس کا ہی معلوم نہیں تو پوسٹ مارٹم کا کیا معیار ہوگا؟
اسی طرح وائلڈ لائف کا پوسٹ مارٹم کرنے والے اکثر ڈاکٹر خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی رپورٹ میں خاص طور پر Not valid for the Courtکے الفاظ لکھتے ہیں۔یہ بات بھی نوٹس میں آئی ہے کہ اکثر پوسٹ مارٹم رپورٹس میں علاقائی صورت حال اور ماضی میں جنگلی جانوروں کے مرنے کی وجوہات کو کاپی کر کے جان چھڑا لی جاتی ہے۔ بہاولنگر اور وہاڑی میں ہرن اور اس نسل سے تعلق رکھنے والی دیگر وائلڈ لائف کی اموات کو پوسٹ مارٹم رپورٹس میں ہارٹ اٹیک یا سانپ کاٹنے کی وجہ قرار دیا گیا ہے
گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے اعدادو شمار کا جائزہ لیا جائے تو جو حقائق سامنے آتے ہیں بڑے حیران کن ہیں۔ مرنے والے جنگلی جانوروں کی زیادہ تعداد فی میل جانوروں کی ہے۔ صرف پنجاب کے چڑیا گھروں اور سفاری پارکس کے اعداوو شمار دیکھیں توگزشتہ ساڑھے چار برسوں میں یہاں 9شیرنیاں اور 6شیر موت کا شکار ہوئے۔ شیرنیوں میں شرح اموات کیوں زیادہ ہے؟ اس کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے۔ جانوروں کی دیگر نسلوں میں بھی مادہ کی شرح اموات زیادہ ہے۔ اس پر بھی ریسرچ کی ضرورت ہے۔ تاکہ بیماری کی صورت میں علاج ہو سکے اور اموات پر قابو پایا جا سکے۔
پاکستان اور پنجاب میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے بہت سے قوانین موجود ہیں۔ یہ قوانین غیر قانونی شکار، ٹرافی ہنٹنگ ،بریڈنگ فارمز، گیم ریزروز،پروٹیکٹیڈ ایریاز،چڑیا گھروں اور سفاری پارکس وغیرہ سے متعلق ہیں یہ قوانین وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کو تو بہت سے اختیارات دیتے ہیں لیکن وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے چھوٹے بڑے ملازمین پر چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھتے۔ یہ قوانین غیر قانونی شکار کرنے والوں کو تو سزا دیتے ہیں لیکن اگر چڑیا گھروں، وائلڈ لائف یا سفاری پارکس میں محکمے کی غفلت سے کوئی جانور موت کا شکا ر ہوجاتا ہے تو اس پر قوانین خاموش ہیں۔جنگلی حیات میں شامل ہر جانور خواہ وہ چھوٹا ہے یا بڑا اس کو خاص ماحول ، تازہ ،اچھی اور مقررہ مقدار میں خوراک کے ساتھ ساتھ سردی ،گرمی سے بچاو اور باقاعدگی سے طبی معائنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ ایسے اقدامات اٹھانے میں ناکام رہا ہے اوراگر کسی اہم اور نایاب جانور کی موت پر کارروائی کی بھی جاتی ہے تو پیڈا ایکٹ2006کے تحت عموماـ"چھوٹے ملازمین پر انکوائری بٹھا دی جاتی ہے جس کا نتیجہ عام طورپر کچھ نہیں نکلتا۔
سوال یہ ہے کہ محض شیرنیاں اور مادہ جانور ہی کیوں زیادہ موت کا شکار ہورہے ہیں؟ وائلڈ لائف کے پوسٹ مارٹمز کی رپورٹس سرسری کیوں بنائی جاتی ہیں؟وائلڈ لائف کے ایکسپرٹ ڈاکٹر بھرتی کیوں نہیں کیئے جاتے ؟وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے اپنے ملازمین کسی جانور کے لیے وجہ موت بنتے ہیں تو ان کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت محکمانہ کارروائی کی بجائے فوجداری کارروائی کا قانون کیوں نہیں بنایا جاتا؟ایسے بہت سے سوال ہیں جن کے جواب وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔
وائلڈ لائف ___ایسا سبجیکٹ ہے جسے نصابی کتب میں شامل ہونا چاہیے۔ تاکہ بچوں کو وائلڈ لائف کی اہمیت اور افادیت بارے معلوم ہو سکے۔ وہ عملی زندگی میں جب قدم رکھیں تو دیگر باتوں کے علاوہ وائلڈ لائف کے حوالے سے بھی انہیں مکمل آگاہی ہو۔ مغری ممالک میں وائلڈ لائف کے متعلق کافی گہرا شعور ہے ۔ ان کے تحفظ کے لیے یہاں کے لوگوں میں جو مثالی جذبہ اور شعور پایا جاتا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ضروری ہے کہ ہم بھی جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اپنا شعوری کردار ادا کریں

مزیدخبریں