قائداعظم کو احساس تھا مسلمان کانگریس کے رحم و کرم پر اچھوت بن جائیں گے: محمد صدیق

ملتان (ظفراقبال سے) ہمارے قائداعظم محمد علیؒ جناح کو یہ احساس تھا کہ اگر مسلمان کانگریس کے رحم و کرم پر رہے تو مستقبل میں اچھوت بن کر رہ جائیں گے لہٰذا مسلمان قوم کی بقا کیلئے لازم تھا کہ جغرافیائی بنیادوں پر ان کے لئے الگ خطہ زمین ہو یہ ایک خواب تھا جس کی تعبیر میں لاکھوں شہداء کا لہو شامل ہے۔ ان حالات کا یوم آزادی کے مجاہد محمد صدیق ولد ہدایت علی نے ہم نے پاکستان بنتے دیکھا میں آنکھوں دیکھا حال کچھ یوں بیان کیا ۔ تقسیم کے وقت میں چوتھی جماعت میں اپنے گائوں مہسری سندھان میں واقع سکول دارانور میں زیر تعلیم تھا اور اس وقت میری عمر کوئی 15برس تھی ۔ میرے والد ہدیت علی سرکاری چوکیدار تھے۔ مہر سنگھ کے والد سجن سنگھ ہم تمام ہم جماعتوں سے بہت پیار کرتے انہی دنوں تقسیم کی آواز بلند ہوئی، حا لات اس قدر خراب ہونے لگے کہ ہر طرف سے افراتفری پھیل گئی، یہاں تک کہ فسادات ہمارے گائوں تک بھی پہنچے تو ہر کسی کو جان بچانے کی فکر لاحق ہوئی، ہر کوئی اپنی جائیدادیں، مال متاع چھوڑ کر بھاگ رہا تھا، میں بھی اپنے خاندان کے سو سے زائد افراد کے ہمراہ گھر سے روانہ ہوئے۔ قتل و غارت کا بازار گرم تھا ہمارے گائوں کے ایک مشہور زمانہ بدمعاش گرنام سنگھ سے میرے والد کا دوست جس کی سفارش پر ہمارے خاندان کی حفاظت کیلئے ملٹری اہلکار مقرر کر دیئے گئے جن کے حصار میں ہمارا قافلہ روانہ ہوا۔ یہ قافلہ بڑھتے بڑھتے کوئی 8/9 کلو میٹر طویل ہو گیا، کئی سو کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کر سکے، مزید چلنا دشوار تھا، بھوک پیاس ستائی تو مجبوراََ درختوں کے پتے توڑ کر کھانے پڑے جبکہ سفرکی تکلیف کے باعث راستہ ہی میں زندگی کے بازی ہارگئیں۔ اس دوران میرے ماموں جن کی عمر 27 برس ہوگی کو بے رحمی سے گنڈاسوں سے شہید کر دیا گیا۔ بڑی کسمپرسی کی حالت میں گنڈاسنگھ بارڈ پر پہنچے، گاڑی پر سوار ہوئے تو کوئی پر سان حال نہ تھا خدا خدا کر کے گاڑی رائیونڈ لاہور ریلوے سٹیشن پرآٓگئی جہاں تین دن تک رہائش ملی گاڑی کے اندر ایک ایسی وبا پھیلی کہ ہر کسی کو الٹیاں لگ گئیں جس سے سینکڑوں مہاجرین وبا کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کفن دفن اور تدفین میں مشکلات کے باعث رائیونڈ سٹیشن کے ساتھ ویرانے میں اجتماعی قبریں کھود کر تدفین کرنا پڑی، جہاں ہر ایک قبر میں 313 افراد کو دفن کیا گیا۔ یہی ہر رائیونڈ کے مکینوں نے دال چاول سے آئو بھگت کی جسے کھا کر سکھ کا سانس لیا، پھر اسی ٹرین کے ذریعے ہمارا قافلہ چیچہ وطنی پہنچا جہاں پر کچھ دن رہائش پذیر ہونے کے بعد چک 79میں مستقل سکونت اختیار لی۔ محمد صدیق نے کہا ہم پرانے وقتوں کے لوگ ہیں مگر آج نیا پاکستان کا نعرہ سن کر دل بہت دکھی ہو جاتا ہے کہ جس مقصد کیلئے ہمارے اکابرین اور قائدین نے پاکستان بنایا تھا آج ہم اس مقصد سے کوسوں دور چلے گئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن