مولانا غلام شافی: شیخ الحدیث وصدر مدرس جامعہ فتحیہ

مولانا غلام شافی 1939ء کو بن سیر بٹہ گرام ضلع مانسہرہ میں مولانا فرید الدین بن مولاناجلال الدین (1951ء - 1871ء) کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق قبیلۂ قریش سے ہے۔ آپ کے اجداد نے حضرت نفس زکیہ کے ساتھ حکومت وقت کے خلاف بغاوت میں حصہ لیا۔ ناکامی پر وہ افغانستان آگئے پھر پشاور اورحضرو سے ہوتے ہوئے بن سیر بٹہ گرام میں مقیم ہوئے۔ آپ کے والد بہت بڑے ماہر فلکیات تھے۔ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ وسطی ایشیاء کی ریاستوں اورافغانستان ، ایران سے طلبہ ان سے مستفید ہونے کے لیے آتے۔ وہ بہت خدا داد صلاحیتوں کے مالک تھے کسی بھی چیز کو ایک نظر دیکھ لیتے تو وہ ان کے حافظہ میں نقش ہو جاتی پھر وہ ویسی ہی چیز بنالیتے۔ ان کے فلکیات کے استادصاحب کے پاس اسطرلاب تھا،جو وہ کسی کو دکھاتے نہ تھے اپنی گود میں چھپائے رکھتے، ضرورت کے وقت اس سے دیکھ کر پڑھایا کرتے۔ ایک مرتبہ مولانا فرید الدین کی نظر اسطرلاب پر پڑ گئی تو انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت ویسا ہی اسطرلاب بنا کر استادصاحب کولادکھایا۔وہ بہت حیران ہوئے پھر ان کی پیشانی چوم کر دعائیہ کلمات کہے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں۔ ان کا بنایا ہوا اسطرلاب اور فلکیات پر لکھی گئی قلمی کتب مولانا غلام شافی کے پاس موجود ہیں۔
مولانا فرید الدین پچاس سال تک فی سبیل اللہ خدمت دین میں مصروف رہے، ہزاروں علماء نے ان سے تعلیم حاصل کی۔ خیبر پختونخوا کے ممتاز مدرس اور عالم دین مولانا خان بہادر مارتنگ، صاحب حق (مدرس جامعہ حقانیہ) اور مولانا اخیار اللہ سواتی بھی ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔ آپ کے دادا مولانا جلال الدین بھی علاقہ کے ممتاز علماء میں سے تھے۔وہ علم منطق میں مہارت تامہ کے حامل تھے۔ انھوں نے سلم العلوم کی مبسوط قلمی شرح لکھی جو آپ کے بڑے بھائی قاری فضل ربی کے پاس مدت تک محفوظ رہی پھر زلزلہ کی نذر ہو گئی۔ مولاناغلام شافی نے ابتدائی تعلیم اپنے والدگرامی کے ایک شاگرد،جوکہ کوئٹہ ملاکے نام سے معروف تھے، سے حاصل کی۔ آپ کے بڑے بھائی قاری فضل ربی 1950ء میں جامعہ اشرفیہ (نیلا گنبدلاہور)میں داخل ہوئے۔ 1951ء میں جب وہ اپنے والد گرامی مولانا فرید الدین کے انتقال پر بن سیر آئے تو واپسی پران کو بھی ساتھ لیتے آئے اور انھیں مولانا غلام اللہ خان کے مدرسہ تعلیم القرآن (راولپنڈی) میں داخل کروایا۔
آپ کچھ عرصہ وہاں رہے لیکن وہاں آپ کا دل نہ لگا، ماحول سے مناسبت نہ ہونے پر بھائی جان کو خط لکھا تو انھوں نے لاہور بلوالیا۔ یہاں آپ جامعہ رحیمیہ نیلا گنبد میں داخل ہوئے اور مولانا اجمل خان اور مولانا غازی شاہ سے ہدایۃ النحو، کافیہ، قدوری،شرح تہذیب اور دیگر کتب پڑھیں۔آپ نے 1952ء میں جامعہ اشرفیہ میں داخلہ لیا اور مولانا عبید اللہ مفتی، مولانا غلام محمد (انڈیا) مفتی محمد جمیل، مولانا رسول خان، مولانا محمدادریس کاندھلوی جیسے اساطین علم سے مستفید ہوتے ہوئے 1958ء میں جامعہ اشرفیہ سے دورہ حدیث کی تکمیل کی۔ اس کے بعد 1959ء میں فاضل عربی کے لیے دوبارہ جامعہ رحیمیہ داخلہ لیا۔ پھر 1960ء میں مدرسہ تجوید القرآن تشریف لے گئے وہاں قاری محمد شریف اور قاری فضل ربی سے استفادہ کیا۔ دورۂ حدیث شریف اور تجوید و قرأت کی تکمیل کے بعد آپ نے درس و تدریس سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور 1960ء سے 1966 ء تک جامعہ حنفیہ بہاولپور ہاؤس (مزنگ) میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ جب کہ مدنی مسجد شاہ عالم چوک میں امامت و خطابت کی ذمہ داری بھی آپ کے پاس تھی۔ اسی دوران آپ نے میٹرک اور ایف اے کے امتحانات پاس کیے۔
اس کے بعدقاری شمس الدین کی خواہش پر 1966ء سے 1972ء تک اردو دائرۃ المعارف الاسلامیہ پنجاب یونیورسٹی میں ڈاکٹر سید محمد عبد اللہ کی زیر ادارت کام کیا۔آپ 1972ء میں تدریس کے لیے جامعہ فتحیہ تشریف لائے۔ 1979ء میں آپ کا داخلہ جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ (ریاض) میں ہوا جہاں سے 1982ء میں سند فراغت حاصل کی۔وہاں سے فراغت کے بعد دس برس تک جامعہ فتحیہ میں مبعوث کی حیثیت سے پڑھایا۔1991ء سے 1995ء تک جامعہ عربیہ گوجرانوالہ، مدرسہ تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ، جامعہ اشرفیہ اور جامعہ رحمانیہ گارڈن ٹاؤن لاہور، ان مدارس میں ایک ایک سال پڑھاتے رہے۔ اس دوران آپ بدستورجامعہ فتحیہ میں بھی پڑھاتے رہے۔ آپ جامعہ فتحیہ میں شیخ الحدیث اور صدر مدرس کے منصب پر فائز ہیں۔آپ نے طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت پر بھرپور توجہ دیتے ہیں اور ان کو ان کے منصب و مقصد کے بارے فکر مند کرتے رہتے ہیں اس اہم کام کے لیے آپ نے ’عالم ربانی کسے کہتے ہیں ‘ کے نام سے ایک کتاب بھی مرتب کی ہے۔ ’حلیۃ المصلی‘ اور ’اربعین صلاۃ‘ بھی آپ کی علمی یادگار ہیں۔آپ سے مستفیدہونے والے ہزاروں علماء اکناف عالم میں ترویج دین کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹوں :انیس الرحمن، محمد خالد ، حامد شافی اور چار بیٹیوں سے نوازا۔ 

ای پیپر دی نیشن