سیاسی جماعتوں کی عمریں اور کردار .... (آخری قسط)

Dec 04, 2012

پروفیسر نعیم مسعود


پاکستان بھر میں تیسری بڑی اور سیاسی و پارلیمانی تاریخ رکھنے والی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہے۔ اس کا وجود بھی مسلم لیگ کی طرح پاکستان بننے سے قبل کا ہے۔ اسکے بانی اور پہلے امیر سید مودودیؒ بھی ایک ٹرینڈ سیٹر تھے۔ انکے بعد میاں طفیل محمد مرحوم اور قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کی باگ ڈور اور ”باگ ڈور“ سنبھالی۔ ان دنوں سید منور حسن امیر ہیں۔ باکمال اور بے مثال سید مودودیؒ کی فلاسفی سیاسیات اور دینیات کو ساتھ لےکر چلنا تھا۔ قائداعظمؒ‘ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سید مودودیؒ کا نام بھی سیاسی افق پر لمبی عمر پائے گا۔ جماعت اسلامی کی تاریخ دیکھیں‘ تو آمریت کےخلاف‘ تحریک تحفظ ختم نبوت سے نظام مصطفےٰ تحریک تک یہ پیش پیش رہی۔ آج بھی تحریک تحفظ ناموس رسالت اور حرمت قرآن جیسی تحریکوں میں سرگرم عمل ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ سیاست سے دور اور رفتہ رفتہ پارلیمانی سیاست سے بہت دور نکل گئی۔
مولانا مودودیؒ کے انقلابی لٹریچرسے بھی وہ استفادہ نہ کر سکی جو ممکن تھا لیکن اس بات کا کریڈٹ اسے دینا پڑےگا کہ اس نے سیاسیات اور سماجیات کو متوازن رکھنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا وگرنہ ”روشن خیالی“ جانے کیا کیا گل کھلا دیتی۔ جان کی امان پاتے ہوئے اتنا عرض ضرور کرینگے کہ جماعت اسلامی کو اپنے تحریکی رویے اور سیاسی فراست کو ری چارج کرنے کی بہرحال ضرورت ہے۔ جماعت کے سبھی امراءاپنا کردار تو ادا کرتے ہی ہیں تاہم حافظ سلمان بٹ‘ لیاقت بلوچ‘ میاں مقصود احمد‘ سراج الحق‘ امیر العظیم اور میاں محمد اسلم کو جیتی جاگتی تصویریں بننا ہو گا۔ میاں مقصود احمد‘ امیر العظیم اور میاں اسلم بڑے سیاسی کھلاڑی تھے لیکن ان کو مناسب جگہوں پر کھیلنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا گیا جس طرح پی پی پی کی جانب سے قمر زمان کائرہ‘ جمشید دستی اور نبیل گبول کو صحیح موقع نہیں ملاچلتے چلتے چند لفظوں میں موجودہ سیاسی موسم کی بات بھی ہو جائے۔ متذکرہ تین پارٹیوں میں مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی میں اتحاد ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ پچھلے دنوں میاں نوازشریف نے اظہار خیال کرتے ہوئے جماعت اسلامی سے اتحاد کے امکانات کا باقاعدہ تذکرہ کیا۔ ”مفاہمتی سیاست“ کے فیشن کے دور میں یہ اچھی اور مفید ”مفاہمت“ ہو گی۔ مفاہمت مزاحمت سے بہرحال بہتر ہے۔ جماعت اسلامی کو بناﺅ کا موقع مل گیا ہے اور اچانک یہ بہتر سیاسی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ جماعت کے پاس موقع ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو سیاسی طور پر پیچھے چھوڑ دے‘ دیر ہوئی تو ایسا سرپرائز دینے میں مولانا فضل الرحمن ماہر ہیں۔ وہ کسی وقت‘ کسی سے بھی سیاسی پلاﺅپکا سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کو چاہئے کہ‘ میاں مقصود‘ سراج الحق‘ میاں اسلم‘ امیر صوبہ بلوچستان اور امیر صوبہ سندھ پر مشتمل سیاسی کمیٹی بنا کر ن لیگ سے مذاکرات کرے۔ بہرحال یہ طے ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہو جائیں گے‘ سیاسی شوقین دمادم مست قلندر کیلئے تیار رہیں‘ اور ق لیگ پی پی پی اتحاد کا دارومدار منظور وٹو اور پرویز الٰہی پر منحصر ہے‘ زرداری صاحب اور چودھری شجاعت بچانے کی کوشش کریں گے لیکن ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے؟

مزیدخبریں