روزنامہ ”زمیندار“ لاہور کے اداریے


مولوی سراج الدین احمد نے یکم جون 1903ءکو لاہور سے ہفت روزہ ”زمیندار“ جاری کیا تو اس کا بنیادی مقصد زراعت پیشہ لوگوں کی مشکلات اور شکایات کو صحافت کے وسیلے سے نشان زد کرنا اور ان کا ازالہ کرنا تھا۔ دوسرا بڑا مقصد اس دور کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانا، ان میں حرکت و حرارت پیدا کر کے فعال بنانا اور فرسودہ رسومات سے نجات دلانا تھا۔ مولوی سراج الدین احمد کی وفات کے بعد، ان کی وصیت کے مطابق یکم جنوری 1910ءکو اخبار ”زمیندار“ کی ادارت انکے بڑے بیٹے ظفر علی خان نے سنبھالی جو علی گڑھ کالج کے تربیت یافتہ روشن خیال اور بے حد فعال نوجوان تھے اور اس اخبار کی ادارت سنبھالنے سے پہلے صحافت اور ترجمہ نگاری میں نام پیدا کر چکے تھے۔ مولوی سراج الدین مالی مشکلات کی وجہ سے اخبار ”زمیندار“ کو اپنے گاﺅں کرم آباد (نزد وزیر آباد) لے گئے تھے لیکن ظفر علی خان جن کا ذہن سیاسی اور ادبی تھا ”زمیندار“ کو دوبارہ لاہور لے آئے جہاں یہ پہلے ہفتے میں دو بار چھپتا تھا اور پھر روزنامہ ہو گیا۔ جنگ بلقان کے زمانے میں ظفر علی خان نے ”زمیندار“ کو دن میں دو بار بھی شائع کیا۔ روزنامے کی حیثیت میں اس اخبار کی قومی خدمات زیادہ اور گراں قدر ہیں۔
ظفر علی خان نے ”زمیندار“ کی ادارت سنبھالنے کے بعد اردو صحافت کو مسلمانانِ ہند کی سیاسی ضرورت اور اپنے مزاج کے مطابق نئی جہت دی اور اپنی ذہانت اور طباعی سے اداریہ نگاری اور شذرہ نویسی کو نئی سمت دی اور اسے مسلمانوں کے قومی اور ملی مسائل، سیاستِ ہند اور کانگریسی رہنماﺅں کی مسلم دشمنی کی سرکوبی کیلئے وقف کر دیا۔ ظفر علی خان نے ”زمیندار“ کے ادارہ تحریر میں عبداللہ عمادی، جالب دہلوی، مولانا غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک، مرتضیٰ احمد خان میکش، حاجی تعلق اور اظہر امرتسری جیسے نابغہ¿ فن اہل قلم کو شامل کیا لیکن اس کی ادارتی جہت خود متعین کی اور اب ہر اداریے کے متن سے ظفر علی خان کا کلمہ ¿ حق بلند ہوتا سُنائی دیتا ہے اور یہ بات غیر اہم ہو جاتی کہ متذکرہ بالا نامور ادیبوں میں سے مولانا کے خیالات کو الفاظ کا جامہ کس نے پہنایا تھا۔
آخری بات میں نے اس لئے عرض کی ہے کہ ”زمیندار“ کے جنوری تا اپریل 1923ءکے اداریے اور شذرے جناب احمد سعید کی تحقیقی کاوش سے بازیافت ہوئے ہیں اور یہ ظفر علی خان ٹرسٹ کے سربراہ جناب خالد محمود اور سیکرٹری راجہ اسد علی خان کی مساعی سے زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظرعام پر آ گئے ہیں۔ اس دور میں مولانا عبدالمجید سالک اور مولانا غلام رسول مہر روزنامہ ”زمیندار“ کے نفس ناطقہ تھے۔ اس کتاب میں شامل اداریوں پر ”زمیندار“ اخبار کے تصورات کو الفاظ کا جامہ پہنانے والے کا نام درج نہیں لیکن یہ کہنا درست ہو گا کہ ان اداریوں پر مولانا ظفر علی خان کے خیالات کی پختہ مہر لگی ہوئی ہے اور ان سے نہ صرف ان کا اصلاحی، انقلابی اور امتیازی مزاج سامنے آتا ہے بلکہ ان سے خدا کی واحدنیت، قرآن کا پیغام اور نبی اکرم کی تعلیمات کے فروغ کے علاوہ اس دور کی عالمی اور ہندوستانی سیاست کے مدّو جزر پر انکے شدید ردعمل کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یکم جنوری 1923ءکے اداریے کا عنوان ”دربارِ کشمیر اور مسلمانانِ پونچھ“ ہے۔ اداریے میں لکھا گیا ہے :
”ریاست پونچھ جسے ایک طرح سے ریاست کشمیر کا ایک جزو سمجھنا چاہئے، کوئی پونے چار لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے اس میں میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً سوا تین لاکھ یعنی 66 فیصد ہے۔ ریاست کی آمدنی 19۔ 20 لاکھ سالانہ ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا غالب حصہ مسلمان زمینداروں اور کاشتکاروں کی محنت کا ثمرہ ہے۔ اسکے علاوہ ریاست کے بدبخت مسلمانوں نے زمانہ¿ جنگ میں 25 ہزار آدمی بھرتی کرا کے عراق، عرب اور دیگر میدان ہائے حرب میں مسلمانوں کے سینے اپنی گولیوں سے چھلنی کئے اور ریاست اور حکومت کی خدمات بجا لائے۔ غالباً انہی خدمات کے صلے میں بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ اسی مسلم کشی کے عذاب میں آج کل مسلمانوں کی حالت ریاست پونچھ میں ناگفتہ بہ ہو رہی ہے۔“
اس اداریے میں مسلمانانِ پونچھ کی حالتِ زار کا عبرتناک نقشہ ہی نہیں کھینچا گیا بلکہ پُرزور احتجاج اس امر پر بھی کیا ہے کہ پونچھ کے فرمانروا راجہ سکھ دیو سنگھ نے ایک مجلس انتظامی بنائی تو اس میں 66 فیصد آبادی کے مسلمانوں کو صرف دو نشستیں دیں اور 33 فیصد ہندوﺅں کو والیِ ریاست سمیت چار نشستیں دیں، اس کےساتھ ہی مسلمانوں سے جابرانہ سود وصول کرنے اور مختلف اداروں میں معزز مسلمان عہدیداروں کو ریاست بدر کر کے ان کی جگہ ہندوﺅں کے تقرر کے خلاف بھی آ واز اٹھائی ہے۔
اخبار ”زمیندار“ کے اداریوں میں عوام کے جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے تو حکومت کے غلط اقدامات جلال و جبروت کی للکار بھی نمایاں ہے اور حکومت سے مفاہمت کرنے والے ”کاسہ لیسانِ ازلی“ اور ”ٹوڈیانِ کرام“ کی مذمت بھی جرا¿ت مندی اور بے خوفی سے کی گئی ہے۔ 22 فروری 1923ءکا اداریہ دیکھئے ”زمیندار“ شاہِ جارج اور شاہِ فیصل کو عراق اور فلسطین کے مسئلہ پر موضوع بنا رہا ہے اور طنزِ شدید کے انگارے کس سطح پر بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں :
”عراق و فلسطین کے ثقیل لقمے ایسے نہ تھے کہ انہیں برطانوی سیاست کا معدہ کسی دوائے ہاضم یا چورن کے بغیر ہضم کر سکتا۔ چنانچہ ادھر تو شریف بے شرف سے کہا کہ ہم نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ سارا عرب تمہیں لے دینگے، وہ آج پورا ہوتا ہے۔ اپنے چھوکرے کو بھیج دو کہ آ کر بغداد کا تخت سنبھالے۔ ادھر یورپ میں ایک چنڈال چوکڑی جمعیة الاقوام کے شاندار اور پُررعب نام سے قائم کر دی اور عراق و فلسطین اس کے حوالے کر دیا۔ چونکہ وہ یاروں کی ہی ملی بھگت تھی اس لئے وہاں سے یہ حکم ہوا کہ ہم ارکان جمعیت سمجھتے ہیں برطانیہ عظمیٰ کو عراق و فلسطین کی حکمدار بنا دیا جائے۔ چنانچہ اس مضحکہ خیز چال سے انگریزی حکومت کا جھنڈا بغداد پر لہرانے لگا۔“
یہ اداریے اور شذرے صرف جنوی تا اپریل 1923ءکے چار ماہ کے سیاسی، سماجی، قومی اور بین الاقوامی واقعات کا احاطہ کرتے ہیں لیکن خوبی یہ ہے کہ انہیں تاریخ کے ماضی اور حال کے تناظر میں لکھا گیا ہے اور ان میں مستقبل کے امکانات اور اندازے شامل ہیں اور ان اداریوں سے تحریک آزادی کی صدائیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کتاب ”تحریک آزادی کا انسائیکلو پیڈیائی معلومات کا خزینہ ہے۔ خوش آئند بات یہ کہ پروفیسر احمد سعید اگلی جلدوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے ظفر علی خان ٹرسٹ کی مساعی گراں قدر قابل داد ہیں۔ 528 صفحات کی یہ کتاب 750 روپے میں مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ (10A -1 حسین سٹریٹ) اولڈ مسلم ٹاﺅن لاہور سے دستیاب ہے۔

ای پیپر دی نیشن