بھارت کے آئین ساز نچلی ذاتوں کے قائد ڈاکٹر بھیم راؤ امبید کر دو قومی نظریے کے حامی اور مسلم قوم کے اتحادی تھے۔ انہوں نے برطانوی مورخ اور صحافی بیورلے نکلس کو 1945ء میں انٹرویو دیا جو مذکورہ مورخ نے اپنی کتاب ’’محاکمئہ ہند‘‘ (Vardid on India) کی Below the bottom rung کے عنوان سے شامل کیا ہے۔ ڈاکٹر امبیدکر کہتے ہیں کہ ’’ہم نچلی ذات کی اقوام بھی کانگرس کی طرح (قوم پرست) نیشنلسٹ ہیں مگر ہمارا مطالبہ ہے کہ برطانوی سرکار اس وقت تک انڈیا چھوڑ کر نہ جائے جب تک ہمارے حقوق محفوظ نہ ہو جائیں اگر انگریز سرکار ہمیں نظرانداز کر کے چلی گئی تو ان کا حال یورپ کے پست اور مظلوم لوگوں کی قسمت سے بھی بدتر ہوگا‘‘ ڈاکٹر امبیدکر مزید لکھتے ہیں کہ گاندھی ہم سے کہتے ہیں کہ ہم ان پر یعنی ہندو برہمن پر بھروسہ کریں ہم ان پر بھروسہ نہیں کر سکتے اس لئے کہ گاندھی اور ان کے ہمنوا برہمن ہندو ہمارے نسلی اور موروثی دشمن ہیں‘‘ بیورلے نکلس لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر امبیدکر نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پالیسی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم ہندو مذہب کا حصہ نہیں بلکہ انڈیا کی قومی زندگی میں مسلمان قوم کی طرح جداگانہ شناخت کے حامل ہیں۔‘‘ ڈاکٹر امبیدکر نے چھوٹی ذاتوں کے واحد نمائندہ قائد کے طور پر گول میز کانفرنسز (R T C 1930-32) میں شرکت کی اور تقریر کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ ’’میرا کوئی وطن نہیں اگر آپ کہیں کہ میرا وطن ہے تو میں مکرر یہی جواب دوں گا کہ میرا کوئی وطن نہیں، کوئی بھی اچھوت جس میں ذرا بھر انسانیت اور تعظیم ذات ہے ایسے دیس کو اپنا وطن قرار نہیں دے سکتا جس میں وہ ایک کتے کی زندگی بھی نہیں گزار سکتا۔ انڈیا ایک دیس ہے جس میں ہمیں کتے بلی کی حیثیت بھی نہیں ہے۔‘‘ گو ڈاکٹر امبیدکرلے ’’پونا پیکٹ ‘‘ (1932) کی وعدہ خلافی کے بعد اپنے کروڑوں چھوٹی ذات کے ہندوئوں کی معیت میں اسلام قبول کرنے کی دھمکی دی جو ہندوؤں اور انگریزوں کے لئے ناقابل قبول تھا۔ لہٰذا انگریز سرکار نے ڈاکٹر امبیدکر کو وزیر، مشیر بنا کر اپنا حلیف بنا لیا اور ہندو آبادی اور کانگرس کو انکے مسلم ہونے سے بچا لیا مگر یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر امبیدکر بحیثیت ہندو فوت نہیں ہوئے بلکہ وفات سے 20 دن قبل یعنی 14 نومبر 1956ء کو ناگپور میں بدھ مذہب قبول کیا ۔
تحریک پاکستان کے دوران ڈاکٹر امبید کر نے دوبار مسلم لیگ کے ساتھ جداگانہ تشخص کی بنیاد پر معاہدہ کیا۔ پہلا معاہدہ گول میز کانفرنسز (1930-32) کے دوران ہوا جس میں ان کو مسلمانوں اور سکھوں کی طرح علیحدہ قوم تسلیم کیا گیا اس ضمن میں مسلم لیگ، قائداعظم اور علامہ اقبال وغیرہ نے ڈاکٹر امبیدکر کی بلامشروط بھرپور حمایت کی۔ کانگرس اور گاندھی نے قائداعظم اور علامہ اقبال کو اچھوتوں کے جداگانہ حق نیابت سے دستکش ہونے کے لئے ’’قائداعظم کے چودہ نکات تسلیم کرنے کا اعلان بھی کیا جو رد کر دیا گیا۔ گاندھی کا موقف تھا کہ مسلمان ان کو انتخابات کے باب میں ہندو قوم ہی کا حصہ تسلیم کریں ۔ مسٹر منڈل لے 25 اگست 1944ء کو کلکتہ میں ڈاکٹر امبید کر کی سرپرستی میں قائم ہونے والی سیاسی جماعت ’’اچھوت قومیتوں کی فیڈریش ‘‘ (S C F) کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ عظیم مسلمان قوم قابل داد ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ بے وفائی سے انکار کر دیا اور گول میز کانفرنسز کے موقع پر ہمارے اور عیسائی اقلیتوں سے ہونے والے ’’معاہدہ تعاون‘‘ سے دستبردار نہیں ہوئے‘‘ قائداعظم نے انکے ساتھ دوسرا ’’معاہدہ تعاون‘‘ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ 1945ء بمقام مدراس میں کیا جس کو بھارتی مورخ اور سول افسر ایس کے بسواس نے اپنی کتاب ’’بھارتی دستور کا باپو‘‘ کے صفحہ 157 میں لکھا ہے کہ قائداعظم، امبیدکر اور تامل اچھوت لیڈر سوامی نائیکر پیری یار کے درمیان ہندو برہمن کے خلاف متحدہ سیاسی جدوجہد کا محاذ بنانے کا اعلان کیا گیا جس کے تحت جو گندر ناتھ منڈل کو بنگال کابینہ میں لیا گیا بعدازاں قائداعظم نے جوگندرناتھ کو عبوری حکومت میں وزیر قانون بنایا اور جن کو مسلم پاکستان میں پہلے وزیر قانون ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔یہ امر دلچسپ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت ڈاکٹر امبیدکر برطانوی ہندی حکومت میں وزیر قانون تھے جن کو آزاد بھارت کا پہلا آئین ساز وزیر قانون ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ڈاکٹر امبیدکر نے ہندو ذات پات کے قوانین (منوسمرتی) میں جدید جمہوری اور سیکولر اقدار کے تحت اصلاحات کرنا چاہیں جس کی کانگرس، نہرو اور دیگر ہندو قیادت نے شدید مخالفت کی اور ڈاکٹر امبیدکر 27 دسمبر 1951ء کو احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔
تاریخ شاید ہے کہ اچھوت انڈیا کی قدیم حکمران اقوام ہیں ۔ تقریباً 5 ہزار قبل کی بات ہے جب وسط ایشیا کی آریائی نسل نے انڈیا پر حملہ کیا۔ آریائی حملہ آوروں نے شکست خوردہ مذکورہ ہندی حکمرانوں کو مارا، پیٹا، جلایا اور بھگایا ان سابق حکمران نسلوں نے شہر چھوڑے اور پہاڑوں، جنگلوں اور دور دراز سرحدی علاقوں میں جا رہے۔ فاتح آریائی نسلوں نے اپنا رعب، دبدبہ اور حکمرانی کو دائمی یا دیرپا شکل دینے کے لئے ہندو مذہب اختراع کیا۔ تاریخ، تہذیب و تمدن کو اس طرح مسخ کیا کہ آج چھوٹی ذاتوں کے یہ لوگ اپنی جداگانہ شناخت کا ادراک بھی کھو بیٹھے ہیں۔ انکی قیادت کو مسلمانوں کے ساتھ سیاسی اتحاد کے باعث آزادی کی امید بندھی تھی جو ڈاکٹر امبیدکر کی موت کے ساتھ بکھر گئی ۔