اسلام آباد (ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کے علاوہ 9 فیصد اضافی ٹیکس کی وصولی پر حکومت سے وضاحت طلب کر لی۔ کیس کی سماعت مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ جسٹس افتخار نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس 25 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ ٹیکس اتنے لگائے جائیں جتنے عوام برداشت کر سکیں پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں کم ہوئیں پاکستان میں پرانی قیمتیں ہی برقرار ہیں ۔ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی ٹیکس نافذ نہیں کیا جا سکتا ۔ کوئی ایسا فیصلہ دکھا دیں جس میں ماضی سے ٹیکس کا نفاذ کیا گیا ہو۔ جبکہ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس عوام دیتے ہیں جبکہ منافع سی این جی سٹیشن کا مالک کماتا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ حکومت 17 فیصد سیلز ٹیکس کے ساتھ 9 فیصد اضافی ٹیکس کیوں وصول کرتی ہے۔ اوگرا صرف صارف کی جیب پر بوجھ نہیں ڈال سکتی۔ حکومت ماضی سے ٹیکس کیسے لے سکتی ہے کچھ تو خدا کا خوف ہونا چاہئے۔ ٹیکس کے لئے اسمبلی سے منظوری لینا پڑے گی رولز کے تحت ہی ٹیکس لگا سکتے ہیں۔ اوگرا صارف پر بوجھ ڈال رہی ہے تو اس کی وضاحت بھی کرے۔ اوگرا آنکھیں بند کرکے قانون کیخلاف کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس معاملہ کو ایف بی آر کا بابو تو سمجھ سکتا ہے عام صارف ٹیکس معاملہ کو نہیں سمجھ سکتا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیئرمین اوگرا کس کے مشورہ سے ٹیکس لگاتے ہیں۔ حکومت عوام کی جیب پر بوجھ ڈالتی ہے تو اس کی وضاحت بھی کرے۔ حکومت نے ٹیکس کا نفاذ کرنا ہے تو قانون سازی کرے۔ چیئرمین اوگرا کا کہنا تھا کہ اوگرا حکومت کی بنائی پالیسی پر عمل کرتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت ضرور چلائیں تاہم شہریوں کی جیب پر اتنا بوجھ ڈالیں جو وہ برداشت کر سکیں، عدالت روزانہ نوٹس نہیں لے سکتی کچھ تو حکومت کو بھی کرنا چاہئے، آئین و قانون غریبوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے امیروں کو فائدہ دینے کی بجائے غریب عوام کے لئے سوچنا چاہئے۔ حکومت جو بھی ٹیکس لیتی ہے اس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے، جس کا جواز دینا پڑتا ہے۔ 24 ویں سماعت میں بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں ٹیکس عائد کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ منافع سی این جی سٹیشنز مالکان اور ڈیلر کھا رہے ہیں جبکہ عوام صرف بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ سی این جی کی قیمت عدالتی مداخلت سے کم ہوئی، اضافی 9 فیصد سیلز ٹیکس ختم ہو تو سی این جی مزید 4 روپے کلو سستی ہو گی۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت 300 یونٹ تک صارفین کو ریلیف دے رہی ہے۔ اچھے اقدامات کی تعریف ہونی چاہئے۔ وکیل نے کہا کہ 350 یونٹ استعمال کرنے والے کا بل ساڑھے 6 ہزار تک پہنچ گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ 18 روپے میں فی یونٹ بجلی بنا کر 9 روپے میں دیں۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ 5 لاکھ اور 10 ہزار کھانے والے دونوں سبسڈی لیں۔ سبسڈی کم یا زیادہ کرنا حکومت کا کام ہے۔