قومی زبان اور قومی طرزِ احساس سے عاری قیادت

قومی اسمبلی میں ہماری قومی زبان کو بطوردفتری، سرکاری اور تدریسی زبان اپنانے سے انکار کا سوال ایک مرتبہ پھر ہنگامہ خیز بحث کا سبب بن گیا ہے-متحدہ قومی تحریک کے ایم این اے شیخ صلاح الدین نے جب یہ سوال اُٹھایا کہ قومی زبان کو دفتری، سرکاری اور درس و تدریس کے شعبوں میں کب اپنایا جائیگا تو اِس کے جواب میں وزیرِاطلاعات جناب پرویز رشید نے فرمایا کہ حکومت اِس باب میں م¶ثر اقدامات کر رہی ہے- اِس پر پاکستان پیپلز پارٹی کی رُکن قومی اسمبلی محترمہ نفیسہ شاہ نے جواب طلب کیا کہ ہمیں یہ بتایا جائے کہ” اُردو کو کب سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے گا؟کیا مستقبل قریب میں اِس کا کوئی امکان ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اُردو کو ذریعہءتعلیم بنا دیا جائیگا؟“ ....وزیرِاطلاعات نے تو جو جواب دیا ، سو دیا ،میرا جواب یہ ہے کہ جب تک ہمارا حکمران طبقہ اور ہماری مغرب نژاد افسر شاہی دورِ غلامی کی لکیروں کو پیٹتی چلی جائیگی ہماری قومی اسمبلی کے معزز اراکین کا اُٹھایا ہوا یہ سوال سوال ہی رہے گا- یہ بات میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں-
مقتدرہ قومی زبان(نیشنل لینگویج اتھارٹی) کے چیئرمین کی حیثیت سے جب میں نے 2005ءمیں محب گرامی جناب اعجاز رحیم ،سیکرٹری، کابینہ ڈویژن کی وساطت اور پُرجوش حمایت کیساتھ سرکاری اور دفتری دائروں میں اُردو زبان کے نفاذ کیلئے سفارشات پیش کی تھیں اُس وقت مجھ پریہ بات عیاں ہو گئی تھی کہ ابھی حقیقی آزادی کی منزل ہم سے بہت دُور ہے- جب کابینہ کے اجلاس میں قومی زبان سے متعلق یہ شِق زیرِ بحث آئی تو اِس پر کوئی بحث نہ ہو سکی صرف غم و غصے کا اظہار سامنے آیا- سب سے پہلے دو وزرائے کرام بھڑک اُٹھے - ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر دو وزرائے کرام میری طرح پاکستان کے انتہائی پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے تھے- ایک سابق فوجی جرنیل تھے اور دوسرے سولین- سابق فوجی جرنیل نے دُھائی دی کہ یہ سفارشات ہماری آئندہ نسلوں کو علم و آگہی سے محروم کر کے جہالت کی تاریکیوں میں دھکیل دیں گی-شاید اُنھوں نے کابینہ کے زیرِ بحث ایجنڈے کی اِس شِق کو پڑھا ہی نہیں تھا-یہ تو درس و تدریس سے متعلق ہی نہیں تھی - اِس میں تو سرکاری اور دفتری کاروبار م¶ثر انداز میں چلانے کیلئے انگریزی کی بجائے اُردو کو رائج کرنے کی سفارش کی گئی تھی-سویلین وزیر بھی ، جو اب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیںیہی رونا رو رہے تھے-ہر دو وزرائے کرام اِس انداز میں غیض و غضب کا اظہار کر رہے تھے کہ باقی ماندہ وزائے کرام پر چُپ طاری تھی- شاید وہ اپنے اِن دو رفقاءکا غصہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کر رہے تھے- میں نے انگریزی اُردو کی اِس بحث میں حصہ لینا بے سود جانا - میں نے اِسکی بجائے آئینی تقاضوں کی بات کی - میں نے یاد دلایا کہ 73ءکے آئین میں نفاذِ اُردو کیلئے تیاری کی جو مہلت دی گئی تھی وہ ختم ہو چکی ہے- مقتدرہ قومی زبان کا ادارہ اِس باب میں تیاری کیلئے قائم کیا گیا تھا- آج میں یہاں یہ خبر لایا ہوں کہ اُردو زبان ہمارے سرکاری اور دفتری شعبوں میں اپنا کردار سرانجام دینے کیلئے تیار ہے- اِسے نافذ کر کے پاکستان کے آئین کا ایک تقاضا پورا کر دیا جائے- اگر کابینہ سمجھتی ہے کہ آئین کا یہ تقاضا پورا کرنے سے قوم کا بہت بڑا نقصان ہوگا تو پھر دو تہائی اکثریت سے آئین کی متعلقہ شق کو منسوخ کر دیا جائے- میں آپ اور ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں- تو پھر آئیے آئین پہ عمل کریں- اِس پر وزیراعظم شوکت عزیز نے بحث کو ختم کر کے ایک وزارتی کمیٹی قائم کر دی جو مقتدرہ قومی زبان کی سفارشات پر مرحلہ وار عملدرآمد کااہتمام کرے-
ہماری سفارشات پر عملدرآمد بہت آسان تھا -مقتدرہ نے اپنا کام مکمل کر لیا تھا- ایسٹا کوڈ(مجموعہءقواعد سرکار)سمیت سرکاری اور دفتری دستاویزات کے آسان اور مروّجہ اُردو میں تراجم شائع کر دیے گئے تھے- درسی اُردو لُغت ، قانونی اُردو لُغت ، دفتری اور سرکاری اصطلاحات کی اُردو لغت سمیت لغت کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی تھیں- اُردو کو کمپیوٹر کی زبان بنانے کی خاطر مقتدرہ نے ڈاکٹر عطش درانی کی قیادت میں اُردو اطلاعیات کے نام سے ایک الگ اور انتہائی فعال ادارہ قائم کر دیا تھا جس میں پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے شعبوں کے اساتذہ ءکرام ہمارے اِس شعبے کی رہنمائی میں سرگرمِ عمل تھے- چنانچہ وزیراعظم شوکت عزیز کی قائم کردہ وزارتی کمیٹی بڑی خوشدلی کے ساتھ اُردو کی ترویج پر مثبت انداز میں پیش رفت پر آمادہ ہو گئی تھی مگر اِس وزارتی کمیٹی کے ابھی صرف دو اجلاس ہو سکے تھے کہ قومی مفاہمتی آرڈیننس (NRO) نازل ہو گیااور یوں وزیراعظم شوکت عزیز کی کابینہ رفت گزشت قرار پائی- نئی عبوری کابینہ کو جو مختصر دورانیہ ملا اُس میں صرف عام انتخابات کا اہتمام کیا جا سکا- انتخابات کے بعد وطن عزیز میں جو مرکزی اور صوبائی حکومتیں قائم ہوئیں اُنھیں مقتدرہ کی جانب سے کسی نے یاد ہی نہیں دلایا کہ کسی زمانے میں نفاذِ اُردو کی ایسی کوئی وزارتی کمیٹی بھی تھی-میں تو NRO کے نفاذ کے بعد 12جولائی 2008ءکو یہ کہہ کر چیئرمین مقتدرہ قومی زبان کی ذمہ داریوں سے مستعفی ہو گیا تھا - میں نے اپنے استعفیٰ میںیہ کہنا ضروری سمجھا تھا:” میںفروغِ اُردو کے ضمن میں جو کر سکتا تھا وہ کر بیٹھا ہوں- اب سوچتا ہوں کہ مجھے کسی اور موزوں سکالر کیلئے یہ جگہ خالی کر دینی چاہیے-مجھے اِس بات کا اعتراف ہے کہ پاکستان میں مجھ سے کہیں بہتر ادیب اور دانشور موجود ہیں-“
مقتدرہ قومی زبان سے اپنارختِ سفر باندھ لینے کا محرک یہ احساس تھا کہ ہمارا حکمران طبقہ قومی زندگی میں قومی زبان کے نفاذ کی اہمیت کو صدقِ دل سے تسلیم ہی نہیںکرتا- ایک ایسا ہی تجربہ مجھے سن ستّر کی دہائی کے نصف اوّل میں بھی ہوا تھا- صوبہ سرحد (آج خیبرپختون خواہ) میںمولانا مفتی محمودنے مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوتے ہی اُردو کوصوبے کی سرکاری اور دفتری زبان بنانے کا اعلان کر دیا تھااور عین اسی وقت بلوچستان میں غوث بخش بزنجو نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی اُردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر رائج کر دیا تھا-اِدھر پنجاب میں مجلسِ زبان ِ دفتری صوفی غلام مصطفی تبسم کی قیادت میں برس ہا برس سے اُردو کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے میں مصروف چلی آ رہی تھی-اِس مجلس نے بھی اپنا کام مکمل کر کے خود کو ختم کرنے کا اعلان کر دیاتھا- چنانچہ پنجاب کی صوبائی حکومت اُردو کے نفاذ کی خاطر صوبائی حکومت کے ملازمین کو تربیت دینے لگی تھی- اُردو کمپیوٹر خرید لیے گئے تھے اور سرکاری اہلکار بڑے جوش و خروش کے ساتھ تربیت حاصل کرنے لگے تھے - پھر ہوا یوں کہ مرکز سے صوبے کے کان میں چند سرگوشیاں ہوئیں - ”اُردو کی ترقی پر دلی مبارکباد مگر اِس ضمن میں آہستہ روی زیادہ مناسب ہے-اِس لیے کہ آپکی یہ کامیابی سندھ کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے-“نتیجہ یہ کہ مجلسِ زبانِ دفتری بھی ختم اور دفتروں میں اُردو کا داخلہ بھی ممنوع-کل جو سندھ کی مشکل تھی آج وہ پورے ملک کی مشکل ہے - مژدہ ہو کہ آج اِس مشکل کو آسان کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں سندھ ہی سے متحدہ قومی تحریک اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین صدائے احتجاج بلند کرنے لگے ہیں!

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

ای پیپر دی نیشن