ہمارے ادیبوں، شاعروں اور کالم نگاروں میں تو جملے بازی ہوتی رہتی ہے۔ کچھ جملہ باز دوست کہتے ہیں بندہ ضائع ہو جائے مگر جملہ ضائع نہ ہو۔ ایک جملے کی کاٹ اتنی ہوتی ہے کہ ساری عمر دوست کو مناتے گزر جاتی ہے مگر بالعموم دوست جملے کو انجوائے کرتے ہیں۔ سیاستدان الزام بازی اور بیان بازی کو رَلا مَلا دیتے ہیں، کبھی کبھی جملہ بھی سرزد ہو جاتا ہے۔ ایسے جملے اور حملے میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ اب سیاستدانوں کی بیان بازی میں بھی جملے بازی کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی جا رہی ہے، وہ جملوں کو انجوائے کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔
اس بات کا خیال مجھے آیا کہ میرے ایک کالم کے عنوان میں جو جملہ تھا اس کے لئے بہت دوستوں نے پسندیدگی کا فون کیا۔ عنوان تھا ”عمران خان پلان زیڈ تک جائے گا“ دراصل یہ جملہ مریم نواز کا تھا بلکہ انہوں نے اس کے بعد کہا کہ پلان زیڈ کے ناکام ہونے کے بعد عمران پھر سے پلان اے سے ”کام“ شروع کر دے گا۔ مریم نواز ٹوئٹر پر بہت معنی خیز اور مزیدار باتیں لکھتی رہتی ہیں۔
عمران نے پلان اے اور بی کے بعد پلان سی پیش کر دیا ہے جس کے لئے شہباز شریف نے بہت دوٹوک بات کی کہ لوگ عمران کے پلان سی کو بھی سی آف کر دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہروں اور ملک کو بند کرنے کی بات ایک اعلانِ جنگ ہے۔ بہت پہلے شیخ رشید نے بھی کہا تھا کہ اب طبلِ جنگ بجنے لگا ہے۔ اس کے لئے میری زبان سے نکلا کہ طبلِ جنگ سے پہلے طبلہ بجے گا۔ وہ تو عمران کے جلسوں اور دھرنوں کے لئے ضروری ہے۔ پلان سی بھی کوئی جلسہ ہو گا۔ اس طرح کا جملہ لکھنے کا ہُنر برادرم توفیق بٹ کو بہت آتا ہے۔ سیاستدانوں کے کاٹ دار جملوں سے زیادہ تیز جملے خود توفیق بٹ کے ہوتے ہیں۔
ابھی تاریخیں عمران خان نے بدلی نہیں تھیں 4 دسمبر کے لئے لاہور شہر کو بند کرنا تھا مگر اس دن جماعة الدعوة کا جلسہ تھا، 4 دسمبر کی تاریخ بدلنا پڑی۔ کچھ میری پریشانی کا بھی خیال انہوں نے کر لیا ہو گا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ میں عمران کا شکریہ کیسے ادا کروں۔ میرا خیال ہے کہ میں برادرم علیم خان کا شکریہ ادا کر دیتا ہوں، ایک ہی بات ہے؟
میں چار تاریخ کو ہومیو ڈاکٹر حامد مسعود سے مل رہا ہوں۔ وہ وقت اور تاریخ کے لئے بہت سخت ہیں، بہت دوست اور دردمند آدمی ہیں بلکہ صوفی آدمی ہیں۔ میری یہ بات انہیں پسند آئی تھی کہ ہومیوپیتھی طب کا تصوف ہے۔ وہ کلینک میں بیٹھ کر مریضوں سے بات نہیں کرتے اپنے دل میں بیٹھ کر مریض کے اندر مرض سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز مرض کا علاج کرتے ہیں۔ ایک اچھا ہومیوپیتھ مریض کا علاج کرتا ہے۔ میں نے سوچا کہ عمران شہر لاہور کو بند کر دے گا تو میں کیسے ڈاکٹر حامد مسعود کے پاس پہنچوں گا بلکہ ڈاکٹر مسعود کے پاس پہنچوں گا کہ اُن کے دفتر کی پیشانی پر جو نام لکھا ہے وہ ڈاکٹر مسعود کا نام ہے، وہ اُن کے والد تھے اور انہوں نے ہی ہومیوپیتھی پاکستان میں متعارف کرائی تھی۔ ڈاکٹر حامد کے اندر ڈاکٹر مسعود کی روح موجود ہے اور وہ روحانی طور پر مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ برادر کالم نگار نواز میرانی نے بتایا کہ ایک قومی اخبار کے سینئر صحافی اپنے وقت پر نہ پہنچے تھے تو ڈاکٹر صاحب نے اُن کے بیٹے کو نہیں دیکھا تھا۔ وقت کی پابندی ہم میں آ جائے تو ہمارے بہت سے کام آسان ہو جائیں۔ عمران نے 16 دسمبر کی تاریخ بدلنا تھی کہ لوگوں نے بہت ردعمل دکھایا تھا، عمران اس طرح مغربی پاکستان (پاکستان) کو بند کر کے سانحہ سقوطِ مشرقی پاکستان منانا چاہتے تھے۔ اس پر برادرم سعید آسی نے ”شہروں کو بند کرنے کی نیازی سیاست“ کے نام سے کالم لکھا ہے۔ جنرل اے اے کے نیازی سے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی تک پاکستان میں کئی ”نام“ آتے ہیں اور عمران خان اپنے نام کے ساتھ نیازی نہیں لکھتا، اس حوالے سے میں کیا لکھوں کہ میں جنرل نیازی کو سقوطِ ڈھاکہ کا ذمہ دار نہیں سمجھتا، بس اس کی غلطی یہ ہے کہ اس نے بھارتی جرنیل کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے۔ قوم کی عزت کے لئے قربان ہونے لئے خودکشی بھی شہادت ہے۔ اس کے بعد جنرل نیازی نے زندہ رہ کر کیا کِیا؟ ”صدر“ زرداری نے بھی عمران کے لئے نیازی لکھ کر پوچھا ہے کہ اسے معلوم نہیں کہ 16 دسمبر کو کیا ہوا تھا؟ البتہ زرداری صاحب کا یہ جملہ اس سے اچھا ہے کہ وکٹ نہ ملے تو باﺅلر اُکتا جاتا ہے اور سیاست ٹیسٹ میچ ہے۔
اب 16 دسمبر کی بجائے 18 دسمبر کو کچھ ہو گا، کچھ نہ کچھ تو ہو گا۔ عمران چاہتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہو جائے اور کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ بہرحال وہ نہیں ہونا چاہئے جو پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمن چاہتے ہیں۔ شہباز شریف کا یہ جملہ زیادہ مزیدار ہے کہ ”عمران نوبال پر وکٹ چاہتا ہے“ اس کے لئے ایمپائر کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس کی انگلی اٹھتی ہی نہیں۔ عمران کہتا ہے کہ ”نیا پاکستان بنانے کے لئے ٹیم چاہئے، میں نے ورلڈ کپ بھی ٹیم کے ساتھ جیتا تھا“ مگر تب اُس نے اپنی ذات کو آگے کیا تھا اور ٹیم کا لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلا تھا۔ اب ٹیم تو عمران کے پاس نہیں۔ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، خورشید محمود قصوری، شیخ رشید وغیرہ اور یہ بہت پرانے آدمی ہیں اس سے پہلے کئی ٹیموں میں کھیل چکے ہیں۔ ”پرانے آدمی نیا پاکستان بنائیں گے“ یہ جملہ برادرم خواجہ سعد رفیق کا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ عمران پہاڑ سے اُترے تو اس کے ساتھ کوئی مذاکرات ہوں۔ مذاکرات کے لئے بھی ٹیم چاہئے اور عمران کے پاس یہ ٹیم نہیں ہے۔ وہ شاہ محمود قریشی کو ہی پوری ٹیم سمجھتا ہے اور قریشی سمجھتا ہے کہ وہ ٹیم کا کپتان ہے۔ اب فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے تو مذاکرات کیسے کامیاب ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ حکومتی ٹیم میں جب تک چوہدری نثار نہیں ہوں گے کامیابی نہیں ہو گی۔ اس سے پہلے ہم 30 نومبر کے لئے چوہدری نثار کو مبارکباد کا پورا مستحق سمجھتے ہیں اور نواز شریف بھی یہی سمجھتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ چودھری نثار کے ڈر سے شہروں کو بند کرنے کے شیڈول میں اسلام آباد نہیں رکھا گیا۔ مذاکرات کے حوالے سے میں ایک خصوصی کالم لکھ رہا ہوں۔ آخر میں خواجہ عمران نذیر کا یہ جملہ ”اور تاریخ بدل گئی!“