امیرِ جماعت اسلامی جناب سراج اُلحق نے 25 دسمبر کو (قائدِاعظمؒ کے یومِ پیدائش پر) ”اِسلامی پاکستان“ کا "Road Map" دینے کا اعلان کِیا ہے۔ لاہور کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے انہوں نے کہا کہ ”پاکستان ہماری مسجد ہے لیکن گزشتہ 67 سال سے اِس مسجد کو امام نہیں مِلا“ سراج صاحب کا بیان جُزوی طور پر درست ہے۔ قائدِاعظمؒ کی قیادت میں آل اِنڈیا مسلم کے پرچم تلے جب اِسلامیانِ ہند قیامِ پاکستان کے لئے جدوجہد کر رہے تھے تواُن کے ذہنوں میں مسجد کا ہی تصّور تھا اور اِس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ 14 اگست 1947ءسے 11 ستمبر1948ءتک اِس مسجد کی امامت کے فرائض حضرت قائدِ اعظمؒ انجام دیتے رہے۔ اِس لئے اِن 67سالوں میں ایک سال اور 29 دِن حذف کر دینا چاہئے۔ قائدِاعظمؒ کے انتقال کے بعد جو بھی ہماری مسجد امامت پر طاقت کے ذریعے یا جمہوری طریقے سے قابض ہُوا، اُن سب کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ امامت کا اہل نہیں تھا۔
اِس نُکتے پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ قائدِاعظم ؒ اور اُن کے ساتھی جب ہمارے لئے مسجد بنانے کی جدوجہد کررہے تھے تو اپنی اپنی ”امامت“ کا دعویٰ کرنے والے کئی ”زُعمائ“ ہماری اِس مسجد کی تعمیر کے خلاف تھے۔ انہوں نے مسجد کے بانی امام (قائدِاعظمؒ) کے خلاف کُفر کے فتوے بھی دیئے تھے۔ 23 مارچ 1940 ءکو لاہور کے منٹو پارک ( موجودہ اقبال پارک) میں قائدِاعظم کی قیادت میں آل اِنڈیا مسلم لیگ کے جلسہ¿ عام میں ہندوستان کے کونے کونے سے آئے مسلمانوں نے اپنے لئے مسجد بلکہ ”جامع مسجد“ تعمیر کرنے کا فیصلہ کر لِیا تھا۔ اُس وقت آل اِنڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی اور قائدِ اعظمؒ اُن کے غیر متنازع لیڈر مولانا مودودی (مرحوم) کی قیادت میں جماعتِ اسلامی 26 اگست 1941ءکو قائم ہُوئی۔
مولانا مودودی نے اپنی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ ”ترجمان اُلقرآن“ ذی الحجّہ1359ھ (1941ئ) کے صفحہ 66 پر لِکھا تھا کہ ”افسوس کہ (مُسلم) لِیگ کے قائدِاعظمؒ “ سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور طرزِ فِکر رکھتا ہو“۔ قیامِ پاکستان کے بعد ”ترجمان اُلقرآن“ کے نومبر 1963ءکے شمارے میں مولانا مودودی نے لِکھا کہ ”ہم اِس بات کا کُھلے بندوں اعتراف کرتے ہیں کہ تقسیمِ مُلک کی جنگ سے ہم غیر متعلق رہے۔ اِس کارکردگی کا سہرا ہم مسلم لیگ کے سر باندھتے ہیں اور اِس میدان میں کسی حصّے کا اپنے آپ کو دعویدار نہیں سمجھتے“ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا مودودی نے قیامِ پاکستان کے بجائے ”تقسیم مُلک“ کی اصطلاع استعمال کی۔
امیر جماعتِ اِسلامی سوم میاں طفیل محمد نے کمال کر دِکھایا جب انہوں نے جماعتِ اسلامی کی گولڈن جوبلی کے موقع پر (امارت سے باضابطہ ریٹائر منٹ کے بعد) 26 اگست 1991ءکو باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں جماعتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام منعقدہ جلسہ¿ عام خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ”تحریکِ پاکستان کے دوران مسلمانوں نے کبھی یہ ہِمّت نہ کی کہ ایک اِسلامی جماعت بنا کر پاکستان کے لئے جدوجہد کریں۔ صِرف مولانا مودودی نے اِس بات کی کوشش کی“۔ اِس موقع پر میاں طفیل محمد نے مولانا مودودی کو ”مجّدد“ قرار دیتے ہُوئے کہا تھا کہ”دُنیا میں کوئی مجّدد ایسا نہیں گُزرا ہوگا جِس نے اپنی زندگی میں اپنا مِشن پورا ہوتے دیکھا“۔
26 اگست 1991 ءکوہی قومی اخبارات میں امیرِ جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد کا ایک مضمون شائع ہُوا جِس میں انہوں نے دعویٰ کِیا کہ”آج سے 50 سال قبل (26 اگست 1941ئ) کو دُنیا مسلمانوں کے لئے تارِیک تھی۔ تحریکِ خلافت کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کو کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ سراسیمگی کی کیفیت طاری تھی۔ انحطاط، مایوسیوں اور گھٹا ٹوپ تاریکیوں کے اُس دور میں مولانا مودُودی نے جماعتِ اسلامی کی تشکیل کی“۔ قاضی حسین احمد نے اپنے مضمون میں یہ بھی لِکھا تھا۔ ”علّامہ اِقبالؒ نے بھی اُمید کی ایک شمع روشن کر رکھی تھی لیکن اُن کا کام زیادہ تر صِرف پیغام تک محدود تھا۔ ان حالات میں خالص دِین کی بنیاد پر مسلمانوں کی صف بندی کرنے کی عملی تحریک برپا کرنے کی سعادت مولانا مودُودی کے حِصّے میں آئی“۔
مولانا مودُودی عورت کی سربراہی کے خلاف تھے لیکن جنوری 1965ءکے صدارتی انتخاب میں انہوں نے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلے میں قائدِاعظمؒ کی ہمشیرہ¿ محترمہ مادرِ مِلّت کی حمایت کی۔ مولانا کی صدارت میں جماعتِ اسلامی کی مجلسِ شوریٰ نے اِس موضوع پر جو قرار داد منظور کی اُس میں کہا گیا تھا کہ ”صدر ایوب خان میں کوئی ایسی خُوبی نہیں ہے سوائے اِس کے کہ وہ مرد ہیں اور محترمہ فاطمہ جناحؒ میں کوئی ایسی خامی نہیں سوائے اِس کے کہ وہ عورت ہیں“۔ گویا مولانا مودُودی اور جماعتِ اسلامی کی مجلس شوریٰ کے نزدیک عورت ہونا ”خامی“ تھا۔ مولانا مودُودی ”اسلامی اِنقلاب“ کے داعی لیکن جمہوریت کے خلاف تھے۔ پھر انہوں نے ”اجتہاد“ کر لِیا۔ 1951 ءکے عام انتخابات میں ناکامی ہُوئی تو موصُوف نے کہا کہ ”پاکستان میں انتخابات کے ذریعے اِسلامی اِنقلاب نہیں آ سکتا“۔
1970ءکے عام انتخابات میں امیر جماعتِ اسلامی میں طفیل محمد، لاہور کے حلقہ نمبر 3 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ”بابائے سوشلزم“ شیخ رشید سے قومی اسمبلی کی نشست کا انتخاب ہار گئے۔ قاضی حسین احمد ہارتے جیتتے رہے۔ سیّد منور حسین نے صِرف امارت پر اکتفا کر لِیا۔ انتخابی میدان میں نہیں کُودے۔ جناب سراج اُلحق خیبر پختونخوا سے صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔ وزیر خزانہ رہے لیکن جماعتِ اسلامی کی امارت کا انتخاب جیتنے کے بعد وزارت سے مستعفی ہو گئے۔ قاضی حسین احمد کے بعد جناب سراج اُلحق جماعت اسلامی کے دوسرے پختون امیر ہیں۔ اُن کا انداز عوامی ہے۔ لیکن جماعتِ اسلامی کی باقاعدہ رُکنیت کے لئے کمیونسٹ پارٹی سے بھی زیادہ سخت شرائط ہیں۔ مختلف مسالک کے عُلماءکی سیاسی جماعتوں کی بھی صُورت یہ ہے۔ عوام سے کہا جاتا ہے کہ ” تم ہمیں ووٹ دو! ہم تم پر اسلامی نظام نافذ کر دیں گے“۔
حکیم اللہ محسود کو ”شہید“ اور اُسامہ بن لادن کو ”سیّد اُلشہدائ“ قرار دے کر سیّد منور حسن نے جماعتِ اسلامی کی عوام میں مقبولیت کو بہت نقصان پہنچایا۔ سیّد صاحب کے اِس بیان کے بعد کہ ”جمہوریت مسائل کا حل نہیں، اِنقلاب کے لئے جہاد وقتال فی سبیل اللہ کے کلچر کو عام کرنا ہو گا“۔ جناب سراج اُلحق جماعتِ اسلامی کے ”اسلامی پاکستان“ کا روڈ میپ کِیا پیش کرتے ہیں؟۔ دیکھتے ہیں!۔