پنجاب میں بڑھتی ہوئی آبادی معاشرتی ایشو ہے : ذکیہ شاہنواز!
اس معاشرتی ایشو پر قابو پانے کے لئے جو حکومتِ پاکستان نے محکمہ بنایا ہے بہبود آبادی کے نام سے تو وہ کیا کر رہا ہے۔ 40 برس ہونے کو آئے ہیں بھٹو دور سے منصوبہ بندی کے نام سے شروع ہونے والا یہ محکمہ جو آج بہبود آبادی کے نام سے سرگرم ہے ملک میں ایک فیصد شرح آبادی میں کمی نہیں لا سکا۔ صرف اشتہار کی مد میں اسی محکمہ کی کارکردگی سامنے آتی ہے مگر عملی طور پر ہماری شرح آبادی ترقی کا سفر کر رہی ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی اس شرح آبادی پر اگر قابو نہ پایا گیا تو بہت جلد ہمارے ملک میں روٹی کپڑا اور مکان کے بحران سے خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔
بچے دو ہی اچھے کا سلوگن خوبصورت اور دلکش ہونے کے باوجود پتہ نہیں کیوں عوام کے دل پر اثر نہیں کر رہا۔ کم از کم 5 بچے ہمارے ہاں خدا جانے کس خاندانی نجابت یا وجاہت کا اظہار کرنے کے لئے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کی کثرت کا سارا زور صرف اور صرف پاکستانیوں پر ہی کیوں ڈالا جاتا ہے۔ آخر دنیا میں درجنوں دیگر اسلامی ممالک بھی ہیں جہاں رقبہ بھی زیادہ ہے دولت بھی مگر آبادی کم ہے اگر یہ کام ان کے سپرد کر دیا جائے تو کیا زیادہ بہتر نہیں۔ ہم تو پہلے ہی گھر گھر بچوں کے لشکر تیار کئے بیٹھے ہیں، ہر گھر میں کھانے کے دستر خوان سے لے کر پہننے کے کپڑوں تک کے معاملے میں باقاعدہ خانہ جنگی کے آثار نمودار ہوتے ہیں، کئی گھروں میں علیحدگی اور خودکشی کی وجہ بھی یہی کثرت اولاد بنتی ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭
میں لاک ڈاﺅن کیخلاف تھا، حشر نشر اور باغی کی باتیں واپس لیتا ہوں : پرویز خٹک!
اب اسے پس مرگ واویلا کہیں یا ماڑی سی تے لڑی کیوں سی۔ اگر اس پر بھی تسلی نہ ہو تو
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
والا شعر حاضر ہے جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ اُس نازک گھڑی میں آپ نے مشت خاک ہونے کے باوجود ”خان“ کا ساتھ نبھایا، جلتی پر تیل ہی نہیں پٹرول بھی چھڑکا۔ اگر اس وقت کوئی بڑا ہنگامہ برپا ہوتا یا خان صاحب بنی گالہ سے باہر آتے تو شاید آج ہماری سیاسی تاریخ کسی اور انداز میں لکھی جا رہی ہوتی۔ مگر صد شکر کہ وہ ہنگامہ رفع ہوا اور ملکی سیاسی تاریخ میں کوئی بڑا بحران نہیں آیا۔ البتہ انقلاب آیا تو خٹک صاحب کی کایا کلپ کی شکل میں ہے۔ اب موصوف سی پیک پر بھی مخالفانہ بیان بازی سے تائب لگتے ہیں۔
شائد ابھی تک ہمارے سیاستدان اتنے بالغ نظر نہیں ہوئے کہ وہ ایسے کام کر جاتے ہیں جن پر بعد میں انہیں بھی پشیمانی ہوتی ہے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم جمہوریت کے اس ناتواں پودے کو جُھلسنے سے مُرجھانے سے بچانے کے لئے اسے مناسب ماحول فراہم کریں۔ ورنہ پھر وہی آٹھ دس برس تک کا جبری ماحول اس کو تباہ کر دے گا جس سے شیخ رشید کو تو توانائی اور خوشی ملے گی۔ باقی کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
بلاول زرداری نے بھی تسبیح پکڑ لی!
لاہور میں بلاول کا یہ نیا روپ اس وقت سامنے آیا جب وہ جنوبی پنجاب کے ورکروں کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ ورکروں کے ساتھ پارٹی کے ترانوں پر تھرتھراتے ہوئے ان کے ہاتھ میں پکڑی تسبیح بھی لہراتی بل کھاتی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی۔ بلاول سے قبل ان کی والدہ بے نظیر نے بھی تسبیح تھام کر مذہبی طبقوں کو رام کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ ان کے والد بھٹو صاحب سے تو مذہبی جماعتوں کی چپقلش دن رات چلتی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو دشمن قرار دیتے تھے۔ مگر بے نظیر تسبیح کے علاوہ باقاعدہ بابا دھنکہ و دیگر بزرگوں سے بھی دعا لینے جاتی رہیں، مولانا فضل الرحمن جیسے جیّد علما بھی ان کے اتحادی بن کر ان کے شانہ بشانہ نظر آتے تھے۔ اب اس وقت بلاول جی کو بھی شاید کسی بزرگ نے تسبیح تھامنے کا مشورہ دیا ہو گا کیونکہ انکی پارٹی کی تسبیح کے دانے بکھر کر اب دوسری جماعتوں کی تسبیح میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
خدا جانے پیر اعجاز شاہ جو آصف زرداری پر مہربان تھے وہ بلاول پر بھی اتنی توجہ دیتے ہیں یا نہیں۔ انہیں بلاول میں اپنے شاگرد رشید، مرید خاص آصف علی زرداری والے گُر و ہُنر نظر آتے ہیں یا نہیں ورنہ یہ ناممکن ہے کہ بلاول کے سر پر موجود نہ ہوں۔ ہو سکتا ہے یہ تسبیح اور اسکو ہاتھ میں رکھنے کی تجویز بھی انہی کی ہو کیونکہ اس طرح عوام پر اچھا اثر پڑتا ہے خاص طور پر یہ ان بے وقوف عوام پر جو آج بھی حکمرانوں کو ظل الٰہی خیال کرتے ہیں اور ولیوں کے برابر طاقت والا مانتے ہیں چاہے ان کے اعمال کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔
٭....٭....٭....٭....٭
نواز شریف سے جمہوریت کی بالادستی کے لئے اتحاد ہے، آج تک مفاد نہیں اٹھایا : محمود اچکزئی!
بے شک یہ اتحاد مبارک ہو مومنوں کے لئے۔ جمہوریت کے نام پر ایسا مبارک اتحاد سوائے مولانا فضل الرحمن کے جے یو آئی کے اور کسی جماعت کو شاید ہی نصیب ہوا ہو گا۔ عجب اتفاق ہے محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے قریبی رشتہ دار ہی سب سے زیادہ اس اتحاد سے مستفید ہوتے ہیں مگر کیا مجال ہے کہ ان کے دامن پر کوئی داغ نظر آئے، اس صفائی سے سارا کام ہوتا ہے کہ لڑتے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار نہیں ہے والی بات درست نظر آتی ہے۔
سچ کہا محمود خان اچکزئی نے کہ انہوں نے آج تک کوئی مفاد حاصل نہیں کیا۔ بلوچستان کا گورنر، بلوچستان اسمبلی کی سپیکر شپ، صوبائی سیکرٹریٹ و محکموں میں اعلیٰ عہدے یہ سب میرٹ پر تقسیم ہوئے اور خوش قسمتی سے یہ سب اچکزئی صاحب کے خاندان کے حصے میں کسی خاندانی وراثت کی طرح تقسیم ہو گئے۔ اب بھلا کون اسے مفادات کا نام دے سکتا ہے۔ کل تک جن مہاجرین کو افغان بھگوڑے اور طالبان کہہ کر انہیں واپس افغانستان بھیجنے کی باتیں کی جاتی تھیں کیونکہ یہ سب اس وقت جے یو آئی کے حامی کہلاتے تھے آج بوگس شناختی کارڈز کی بدولت ووٹروں میں ان کا اندراج کروا کر ان کے بل بوتے پر الیکشن جیتنا بھی مفاداتی سوداگری نہیں تو کیا یہ سب جمہوریت کی بالادستی سمجھی جائے۔
٭....٭....٭....٭....٭