عذرِ لنگ،جوازِ لنگ

انگلش میڈیم میں پڑھنے سے انگریزی تو کیا اچھی ہوتی ، ہماری اردو بھی خراب ہو گئی۔تو فارسی اور عربی کا کیاذکر۔عربی کو تو ہم لوگوں نے نماز اور تلاوت تک محدود کردیا ہے لیکن فارسی سے اکثر و بیشتر پالا پڑتا رہتا ہے۔فارسی کی اکژتراکیب اردو میں مستعمل ہیں جن میں سے ایک آج ہمارے کالم کے عنوان میں کام آگئی۔” عذر ِ لنگ“ کا استعمال زبان زدِ خاص و عام ہے۔جسے انگریزی کے لیم ایکس کیوز (Lame Excuse) کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔اس کے بارے میں صحیح رائے تو کسی ماہر فارسی سے مل سکتی ہے لیکن ہمیں یہ کچھ ٹھیک نہیں لگتا ۔مثلاً فخرِ پاکستان کا مطلب ہے پاکستان کا فخر تو عذرِ لنگ کا مطلب ہوا ،لنگڑاہٹ کا عذر ،جو کسی طرح بھی لنگڑا عذر یا لیم ایکس کیوز نہیں ہو سکتا۔(ہم نے اپنے ایک کالم میں اس بات کا رونا رویا تھا کہ ہمارے یہاں ’غلام محمد اور غلام مصطفےٰ‘ کہا جاتا ہے جو صریحاً غلط ہے۔۔اسے غلام ِ محمد یا غلام ِ مصطفےٰ یعنی محمد کا غلام کہنا چاہیے۔ ستم ظریفی یہ کہ بھارت میں ایک فلم کا نام غلام ِ مصطفےٰ ہی رکھا گیا تھا۔جو بالکل درست تھا)۔اس لمبی چوڑی تمہید کا مقصدیہ ہے کہ آج ہم چندلنگڑے جواز پیش کرنا چاہتے ہیںجنہیں جواز لنگ بطرزِ عذرِ لنگ لکھنا ہمیں کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔ خیر اس بحث کو تعلیم یافتہ حضرات کے لیے چھوڑتے ہوئے چند جواز پیش کر رہے ہیں جو ہمارے صاحب اقتدار اپنی مقصد براری کے لیے پیش کرتے ہیں۔
( کالم کی طوالت کے پیش نظر اختصار سے کام لیا جائے گا)
سیکیوریٹی گارڈز: برسوں پہلے صوبے سرحد سے نوکری کی تلاش میں آنے والے ایک ڈنڈا اور ایک سیٹی لے کر از خود کسی بھی محلے کی چوکیداری سنبھال لیتے تھے۔رات بھر سیٹی اور ڈنڈا بجاتے اور پہلی تاریخ کو محنتانہ وصول کرنے گھر گھر پہنچ جاتے۔جو آٹھ آنے سے ایک روپیہ تک ہوتا تھا(اس زمانے میں دودھ آٹھ آنے کا ایک سیر ملتا تھا جو آج ستر روپے کا ہوتا ہے۔اس سے آٹھ آنے کی قیمت جان لیجیے)۔بعد میں محنتانہ میں اضافہ ہوتا گیا۔جب ان چوکیداروں کی آمدنی میں اضافہ ہوا تو ہوس بڑھی اور انہوں نے سائیکل لے لی اور اپنی اپنی حدود میں اضافہ کر لیا۔سیٹی کی آواز سے چوروں کو معلوم ہوجاتا کہ چوکیدار کتنی دور ہے ۔اس سے چور اور چوکیدار میں ٹکراﺅ کا خدشہ بھی جاتا رہا۔۔
ایک رات ہمارے گھر کے صحن سے کوئی اٹھائی گیرا ایک دو چیزیں اٹھا لے گیا ہم نے چوکیدار سے کہا پیسے لینے تو آگئے ، کیسی چوکیداری کرتے ہو ہمارے گھر میں چوری ہوگئی ۔تو بڑے بھول پن سے بولا ہم تو چوکیداری کرتا ہے۔چوری ہو گیا تو اللہ کی مرضی۔ہم کیا کرے۔اس طرح سے بے وقوفی کی بات کر کے مزے کرنے کو بھارت میں کہتے ہیں ۔ ” ایڑا (بے وقوف) بن کر پیڑا کھانا“۔اس چوکیداری کے نظام میں ہلکی پھلکی چوریاں عام تھیں کہ اچانک ان میں اضافہ ہونے لگا اور بات چوری سے ڈکیتی تک پہنچنے لگی۔نتیجے میں ڈکیتیوں کو جواز بنا کر سیکیوریٹی گارڈز آگئے۔وردی میں ملبوس پستول بندوق سے آراستہ ۔ ۔محنتانہ ہزاروں تک پہنچ گیا۔ اب ہر بڑے ریستوران اور دکانوں کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ گارڈ رکھیں۔سنا ہے کہ ایسے کئی گارڈز کے پاس اسلحہ صرف دکھاوے کا ہوتا ہے۔گولیاں بھی نہیں ہوتیں۔آج تک ان گارڈز نے کبھی کوئی چور ڈاکو نہیں پکڑا۔ہاں بڑے بینکوں وغیرہ میں سیکڑوں وارداتوں کے بعد ایک آدھ مثال کے لیے ناکام واردات بھی ہوتی ہے۔ بڑی وارداتوں میں اکثر گارڈز کو ملوث بھی پایا گیا جو کروڑوں لے کر فرار ہوئے اور پکڑا ایک بھی نہیں گیا۔فلیٹوں وغیرہ میں بھی گارڈز نے ہاتھ دکھائے۔انشورنس کمپنیوں نے بھی شرط لگادی ہے کہ گارڈز رکھنا ضروری ہے اس لیے تمام شاپنگ پلازہ، فلیٹس اور بڑے دکاندار دس سے لے کر پچاس ہزار تک کا یہ بھتہ سیکیوریٹی کی مد میں برداشت کر رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی چوریوں اور ڈاکوں نے سیکیوریٹی گارڈز کی تعیناتی کا” جوازِ لنگ“ پیش کردیا
بجلی کا بحران:۔ بجلی ہمارے پاس اتنی تھی کہ ہم بھارت کو دینے پر تیار تھے۔اچانک اس میں اتنی کمی ہو گئی کہ ہمیں لوڈ شیڈنگ کرنا پڑ گئی۔ایران نے سستی بجلی کی آفر کی تو ہماری غریب پرور حکومت نے کان بند کر لیے کہ یہ رنگ میں بھنگ ڈالنے کہاں سے آگیا۔ہمیں تو رینٹل پاور لینا ہے۔۔سستی بجلی دینے والا کہاں سے کک بیک(Kick back) دے سکے گا۔یہ آج تک نہیں معلوم کہ بجلی کی پیداوار میں کمی کیسے آگئی۔(سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کو چلتا کر دیا)
گیس کا بحران:۔ گیس کے بارے میں سنتے تھے کہ کئی سو سال کے لیے کافی ہے،اس لیے کاروں میں استعمال ہونے لگی۔ کٹس امپورٹ ہوئیں۔ CNG اسٹیشن جا بجا کھل گئے۔گیس کی بسیں بھی امپورٹ ہونے لگیں۔گیس اسٹیشنز کے لیے لائیسنس کروڑوں کی رشوت کے عیوض ملنے لگے۔اچانک گیس میں کمی ہونے لگی، گیس مہنگی ہوئی۔ایسا کام دکھایا کہ سارفین کی چیخین نکلنے لگی۔کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جب گیس کم ہے تو گاڑیوں کے لیے گیس کٹس کیوں منگوائی گئیں۔اب معلوم ہوا کہ پریشر اورگیس کی کمی ”جوازِلنگ“ ہے ایک اور گیس امپورٹ کرنے کے لیے۔اللہ کرے سپریم کورٹ اسے ہتھے پر ہی روک دے
اسٹیل مل:۔ اسٹیل مل بیچ کھانے کے لیے بھی ایک جواز پیدا کیا گیا تھا کہ اس سے فائدہ کی بجائے نقصان ہورہا ہے اس لیے (شائد)

اسے ۲۱، ارب میں بیچنے کا پروگرام بنایا گیا۔سپریم کورٹ کو معلوم ہوا کہ خام مال اور فنشڈ گڈز کی مد میں ۲۱۔ ارب کا تو مال موجود ہے، تو خریدنے والے کو تو یہ مفت پڑے گی۔مل، زمین ،رہائیشی زمین الگ۔سپریم
کورٹ نے سودا منسوخ کرادیا تو مشرف نے چیف جسٹس کو معزول کردیا ۔
پاکستان ریلویز :۔ اس کے ساتھ بھی نقصان کا جواز پیش کیا گیا تاکہ اسے بند کردیا جائے اور بس اور ٹرک ٹرانسپورٹروں کو فائدہ پہنچایا جائے۔اس کے لیے ایک بہت بڑے ٹرانسپورٹر کو وزیر ریلوے بنادیا گیا کہ یہ کام بخوبی سر انجام دے سکے
پی آئی اے :۔ پی آئی اے کے جہاز بھی بر وقت آنے جانے سے معذور ہوئے۔کبھی انجن میں آگ تو کبھی کوئی اور آفت۔۔اسے بھی جواز بنایا گیا بند کرنے کا تاکہ ایک خاص شخصیت کو اپنی ایر لائین بنانے کا لائیسنس مل سکے۔
اس طرح کے کئی لنگڑے لولے جواز پیش کیے جاتے ہیں تاکہ اپنا الو سیدھا کیا جاسکے۔۔ڈر یہ ہے پاکستان کو ختم کرنے کے لیے کہیں اسے ناکام ریاست بنانے کی کوشش تو نہیں کی جارہی لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس ملک کی حفاظت کا ذمہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اس ہی لیے اللہ نے عدالتوں کی آزادی کا انتظام کردیا جو پاکستان کو نقصان پہنچانے والے ہر اقدام کو مسترد کر رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن