پاک فوج کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف نیک نامی اور عوام کی محبتوں کا ذخیرہ سمیٹ کر رخصت ہو گئے اور ان کے آنے والے جانشین کا ”کڑا امتحان“ شروع ہو چکا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے لئے سخت اور مشکل ترین راستوں کا خود انتخاب کیا اور اﷲ عزوجل کی مدد و نصرت سے وہ ہر محاذ پر سر خرو رہے۔ منفی سیاست کرنے والے سیاست دان پرویز مشرف کی طرح کے کسی منفی فیصلے کی ان سے بھی امید لگائے بیٹھے رہے مگر ہر دن کا طلوع ہونے والا سورج ان سیاسی رہنما¶ں کے لئے ناکامی و نامرادی کا پیغام لیکر آتا رہا۔ پاک فوج کے ایک سابق جرنیل عبدالقادر بلوچ نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ جنرل راحیل شریف نے خود مجھ سے کہا تھا کہ ”میں خاندانی آدمی ہوں‘ کسی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کو گناہ عظیم سمجھتا ہوں“ اب اس طرح کی مثبت سوچ رکھنے والے راحیل شریف کو بھی اگر کوئی شخص پرویز مشرف جیسی ذہنیت کا مالک سمجھ کر ان کی ”انگلی“ کا منتظر رہا تو پھر تصور اس کا اپنا ہی ہے‘ راحیل شریف کا تو نہیں۔ ہماری قومی سیاست کے ایک ”غیر سنجیدہ“ کردار شیخ رشید بھی اس کمہار کی بیٹی کی طرح ہیں جس کے گھر سے فرار کے بعد اس کا باپ لوگوں کو فخریہ بتا رہا تھا کہ میری بیٹی تھی بڑی ”پہنچی ہوئی سرکار“ کیونکہ چند دنوں سے وہ مسلسل کہہ رہی تھی کہ ہمارے گھر کا ایک فرد اب آئندہ کسی کو نظر نہیں آئے گا لٰہذا میری بیٹی کا دعویٰ سو فیصد ٹھیک نکلا ہے اب ہر جگہ تلاش کے باوجود وہ ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آرہی۔ اسی طرح ہی شیخ رشید بھی ہر آئے دن ٹی وی چینلز پر یہ ”بلند بانگ“ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ نومبر میں ”دو شریفوں“ میں سے ایک ”شریف“ گھر چلا جائے گا۔ ”انگلی“ کے منتظر ان سیاست دانوں کے لئے جو ہر روز نواز شریف کو گھر بھیجنے کے خواب دیکھا کرتے ہیں ایک بری خبر یہ ہے کہ نئے آنے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جو کہ ممتاز کالم نگار اور وزیراعظم کے مشیر خاص عرفان صدیقی کے اردو کے شاگرد بھی رہے ہیں بھی پرویز مشرف جیسی سوچ رکھنے والے جرنیلوں سے سخت نفرت کرتے ہیں ان کے ایک بچپن کے گہرے دوست اور کلاس فیلو حامد رضا وٹو نے بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو لفظ ”مارشل لائ“ سے سخت چڑ ہے جن دنوں فوج کے جوان گھر گھر بجلی کے میٹر چیک کرتے پھر رہے تھے تو ان دنوں انہوں نے اس فعل کو ناپسند کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج کا کام محاذ جنگ پر ہے یہ جنگ چاہے خارجی دشمنوں کے ساتھ ہو یا ان کے پروردہ ایجنٹوں کے خلاف داخلی محاذ پر جو ملک کے اندر دہشت گردی میں ملوث ہوں.... ان درج بالا وجوہ اور حقائق کی روشنی میں ہر وقت ”انگلی“ کے منتظر عمران خان کے لئے بھی یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ حالات و واقعات کا گہری نظر سے مشاہدہ کرنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کا سیاسی مستقبل کوئی روشن دکھائی نہیں دے رہا اور وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی مایوسی کا شکار ہوں گے۔ عمران خان کے غلط فیصلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان دور اندیش لوگوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں جا کر عمران خان سخت پچھتاوے میں مبتلا ہیں کیونکہ ان کے قانونی مشیروں نے ان کو بتایا تھا کہ نواز شریف کا اپنا نام پانامہ لیکس میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان کے وکلاءکی نشاندہی پر پہلی پیشی پر ہی ناقابل سماعت قرار دیکر درخواست مسترد کر دی جائے گی۔ مگر عمران خان کی توقع کے برعکس نواز شریف نے اپنے وکلاءکو واضح طورپر اور سختی کے ساتھ تاکید کی کہ مقدمے کے ناقابل سماعت ہونے کی نشاندہی قطعی طورپر نہ کی جائے کیونکہ ہم پانامہ لیکس کا ملبہ کاندھوں پر اٹھا کر 2018ءکے انتخابات کی مہم نہیں چلانا چاہتے۔ اس مقدمہ کے تمام فریق سپریم کورٹ کو تحریری ضمانت اور یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ فیصلہ جو بھی آئے ہم سب کو قبول و منظور ہو گامیرے سمیت کوئی شخص بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ دے گی مگر اتنی بات ضرور ہے کہ ثبوتوں کی فراہمی کے لئے عمران خان اور ان کے وکلاءکو سخت محنت کرتے ہوئے ”کونے کھدرے“ کوتلاش کرنا ہو گا اور وہاں سے دستیاب ہونے والی تمام اشیاءکا باریک بینی بلکہ خوردبینی سے مشاہدہ کر کے عدالت تک یہ پہنچانی ہوں گی۔