میری ماں زندہ اور ازبک سیکیورٹی فورسز کی قید میں ہے: اسلام کریموف جونیئر

Dec 04, 2016

لندن(اے این این) ازبکستان کے سابق صدر اسلام کریموف کی بیٹی گلنارا کے بیٹے نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی والدہ کہاں ہیں اس بارے میں معلومات عام کی جائیں۔گلنارا کو کبھی ایک طاقتور شخصیت سمجھا جاتا تھا۔بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اسلام کریموف جونیئر نے ان حالیہ خبروں کو مسترد کیا جن کے مطابق ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ انھوں نے ازبک سکیورٹی سروسز پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے ان کی والدہ کو قیدِ تنہائی میں رکھا ہوا ہے۔گلنارا کو ایک دور میں اپنے والد کی جانشین قرار دیا جا رہا تھا۔وہ 2014 ءمیں ایک خاندانی جھگڑے کے بعد منظر عام سے غائب ہو گئی تھیں۔گلنارا پر جن کی مصروفیات میں کاروبار، سیاست، فیشن اور پاپ میوزک شامل تھا، بدعنوانی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے۔لندن میں مقیم ان کے بیٹے نے بی بی سی ازبک کو بتایا کہ ان کی والدہ کو تاشقند میں موجود ان کی جائیداد ہی میں واقع تین کمروں والے ایک مکان میں رکھا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک طویل عرصے تک قید تنہائی میں رہنے کی وجہ سے ان کی والدہ کی صحت متاثر ہوئی ہے۔اسلام کریموف جونیئر کا کہنا تھا وہ دو تین سال سے تنہا ان بنیادی انسانی حقوق کے بغیر رہ رہی ہیں جن کی کسی بھی شخص کو ضرورت ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی بھی انسان کو کسی نہ کسی حد تک طبی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن وہ ذہنی طور پر ٹھیک ہیں۔ ایسی اطلاعات کہ وہ ذہنی امراض کے ہسپتال میں ہیں سراسر غلط ہیں۔گلنارا بین الاقوامی سطح پر ازبکستان کی پہچان بن گئی تھیں۔ وہ ایک فیشن لیبل اور ایک پاپ ویڈیوز ریکارڈنگ کمپنی کے ساتھ منسلک تھیں۔ ان کے پاس سفارتی عہدے تھے اور وہ اہم تجارتی معاملات سنبھالتی تھیں۔لیکن تین سال قبل ان پر رشوت اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے گئے تھے۔کچھ ہی عرصے کے بعد ان کے خاندان میں ہونے والے اختلافات منظر عام پر آ گئے۔ اس کے بعد ان کی مصروفیات کو بہت محدود کر دیا گیا جن میں ان کے سوشل میڈیا اکانٹس بھی شامل تھے کیونکہ انھوں نے برملا ازبکستان کے سیکیورٹی اداروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔دی سنٹرل ون ڈاٹ کام نے 22 نومبر کو سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے گلنارا کی موت کی خبر دی۔ یہ خبر بین الاقوامی سطح پر شائع ہوئی۔گلنارا کے بیٹے کا کہنا ہے کہ طاقتور سکیورٹی سروس ایس این بی ان کی والدہ کو قید کرنے کی ذمہ دار ہے اور ان کے ساتھ کیا ہوا اس بارے میں معلومات بھی فراہم نہیں کر رہی۔ اسلام کریموف کا کہنا ہے کہ ان کا اپنی والدہ سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہے تاہم ان کی ایک بہن اب بھی ازبکستان میں ہیں جن کے توسط سے انہیں اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔اسلام کریموف کا کہنا ہے کہ اگر وہ واپس ازبکستان جاتے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ واپس ہی نہ آئیں۔میں جانا چاہتا ہوں، لیکن اگر میں جاتا ہوں تو میں واپس نہیں آ پا¶ں گا۔

مزیدخبریں