پاکستان کی صورت حال ،بکھرنے کی نہیں جڑنے کی ضرورت ہے

گزشتہ چند مہینوں سے ملک جس بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے اس نے ہر شہری کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ابھی پانامہ چل ہی رہا تھا کہ ایک اور دھرنا اپنے مسائل لے کر سامنے آیا۔جس کا اختتام ایک انتہائی بحرانی کیفیت سے ہوتا ہوا آخر کار بہتر انجام کو پہنچا۔ادھر حکومت اور فوج دونوں کا یہ کہنا ہے کہ ملک حالات جنگ سے گزر رہا ہے۔ایک ایمرجنسی کی سی صورت حال ہے۔جس میں حکومت کے تمام ادارے اپنے اپنے دائروں میں رہ کر اپنا کردار اد ا کر رہے ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ جو بھی کچھ ہورہا ہے۔اس کا براہ راست اثر اس ملک کے بیس کروڑ عوام پر پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیابی سے جنگ لڑی جارہی ہے۔ جس میں آپریشن ضرب عضب اور اب رد الفساد اپنی کامیابی کی وجہ سے ہر جانب سے تحسین وصول کرچکے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ملک میں صحیح معنوں میں انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیئے ان تمام نکات پر عمل کرنا پڑے گا جسے نیشل ایکشن پلان کا نام دیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس میں بڑی ذمہ داری حکومت پر ہے کیونکہ اسی کے تحت اسے عوام تک پہنچایا جائے گا۔ ویسے بھی جمہوریت میں عوام تک پہنچنے کی ذمہ داری پارلیمان اور عوامی نمائندوں کی ہوتی ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ یہ صورت حال سیاسی جماعتوں کی چپکلش کی وجہ سے انتہائی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ایک وزیراعظم کو اعلی عدلیہ کی جانب سے نااہل قرار دیا جاچکا ہے۔اور وہ نیب کے مختلف ٹرائل سے گزر رہے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی جماعت کو پارلیمان میں واضح اکثریت بھی حاصل ہے اور وہی حکومت بھی چلارہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس نے موجودہ حکومت کو بہت کمزور بنادیا ہے۔ حالیہ فیض آباد کے دھرنے نے اس بات کو اور زیادہ واضح کردیا ہے۔ جس انداز میں یہ سارا دھرنا اختتام پذیر ہوا اس نے پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑا دی اور بہت سے ایسے سوالات سامنے آئے ہیں جو معاشرے کی بنیادی قدروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں یہ سوال بھی پیدا ہوا ہے کہ ملک میں کس قسم کا سیاسی نظام چل رہا ہے؟۔ پارٹیاں اور پارلیمان اپنا اپنا رول بخوبی انجام دے پارہی ہیں یا نہیں ؟۔ کیا سیاسی جماعتوں میں اختلاف دشمنی کی وہ کیفیت اختیار کرچکا ہے کہ جس میں اب ان کے درمیان کوئی لچک یا مفاہمت کی گنجائش ختم ہوچکی ہے؟بہت سے سوالات حکومت کے مختلف شعبوں اور اداروں پر بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ ان میں سے ایک حکم نامہ ہے جو ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز نے دھرنہ کیس کے فیصلے میں جاری کیا ہے۔ لیکن کاش یہ سب کچھ حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان طے ہونے والے معاہدے اور اس کے انجام کے بعد ختم ہوجاتا۔عام شہری کو پریشانی یہ ہے کہ اس سارے معاملے کے اثرات کہیں دور تک نہ چلے جائیں۔انتخابات سر پر کھڑے ہیں ، سیاسی بحران جاری ہے ، حکومت کمزور ہوتی ہے تو کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ اسے جمہوری نظام میں عوامی رائے کے مطابق انتخابات کے ذریعے تبدیل کردیا جاتا ہے اور نئے لوگ آجاتے ہیں۔لیکن اگر ریاست کی رٹ کمزور ہوجائے اور یہ تاثر عام آدمی میں جانے لگے کہ ریاست ان کے تحفظ اور آئین کی پاسداری کے فرائض انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوری تو یہ سارے ملک کے لیئے شدید پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔جیسا کہ اس دھرنے میں پولیس کے استعمال کی انتہائی ناقص حکمت عملی دیکھنے میں آئی۔ان پولیس آفسران اور اہلکاروں کے بیانات اب عام ہیں۔جن کو دھرنے کے افراد نے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔یہاں تک کہ انہیں جلانے تک کی دھمکیاں دی گئیں۔پولیس کے یہ اہلکار ریاست کے احکامات کے تحت امن وامان بحال کرانے کے لیئے آئے تھے اور اپنے سرکاری فرائض انجام دے رہے تھے۔ان پولیس افسران کو نہ صرف حکومت بلکہ محکمے کے بڑے افسران سے بھی شدید گلہ ہے جنہوں نے نہ صرف ان کی بے بسی کا تماشہ دیکھا اور نااہلی اور بر وقت کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے پولیس کی وردی کے تقدس کو تار تار کیا۔ یہ کسی بھی حکومت یا سیکورٹی اداروں کے لیے کوئی اچھی بات نہیں۔ ان پر فوری توجہ اور ازالہ کیا جانے کی ضرورت ہے۔سب سے بہتر حل تو یہ نظر آتا ہے کہ اب سوچ کو بدلنے کا وقت ہے۔ملک کے بہتر مستقبل کے لیئے اداروں کے بجائے منتخب حکومتوں کو مضبوط کیا جانا ضروری ہے۔پارلیمنٹ میں آنے والی تمام ہی سیاسی پارٹیوں کو سڑکوں پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پارلیمنٹ میں بل پیش کر تے،بحث کرتے ہوئے قانون سازی کرتے نظر آنا چاہیئے۔سیاسی جماعتیں عوام کو اتنا فارغ بھی نہ سمجھیں کے پہلے تو وہ ووٹ دے کر ان کو ایوانوں میں پہنچائیں اور پھر بات بات پر سیاسی اختلافات کو سڑکوں پر لاکر عوام کو اس کا ایندھن بنائیں۔یاد رکھیئے اتحاد اور سوچ کی پختگی ہی دنیا میں قوموں کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن