جی ہاں، 1970کی دہائی میں جوان ہونے والے کئی پاکستانیوں کی طرح میں بھی کئی برسوں تک خود کو ”ترقی پسند“ تصور کرتا رہا ہوں۔ اس حوالے سے ”آزاد خیال“ ہونے کا مگر موقع نہیں ملا۔ ”ترقی پسندی“ کے جس فرقے سے منسلک تھا وہاں ”آزادخیالی“ جسے ان دنوں ”لبرلزم“ پکارا جاتا ہے- ”بدعت“ تصور ہوتی تھی۔ طبقاتی تقسیم کو مبہم بنانے والی ”بدعت“ جو ”انفرادیت“ کو اجتماعیت پر ترجیح دیتی ہے،کسی فرد کو نظریاتی بنیادوں پر اٹھائی تنظیم کا متحرک کارکن بننے نہیں دیتی۔
اس فرقے نے سعادت حسن منٹو کو ”فحش نگار“ ٹھہراتے ہوئے اپنی صفوں سے خارج کردیا تھا۔ ”ترقی پسندوں“ نے منٹو کو اس کی موت کے کئی برسوں کے بعد Ownکیا ۔ کئی حوالوں سے یہ ایک منافقانہ ”قبضہ“ تھا میں لیکن فی الوقت کسی ”نظریاتی بحث“ میں اُلجھ کر آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا۔ اطلاع آپ کو فقط یہ دینی ہے کہ میں ”لبرل“ نہیں ہوں۔ چونکہ میں ”لبرل“ نہیں لہٰذا مجھے ان کی اس قسم میں بھی شمار نہیں کرنا چاہیے جسے عمران خان صاحب نے ”خونی“ کہا ہے۔ ”خونی لبرلز“ جو امریکہ کو طالبان کے خلاف جنگ کے نام پر ”بے گناہ شہریوں“ پر ڈرون گرانے پر اُکساتے ہیں۔ جی ہاں،وہی لوگ جنہوں نے جنرل مشرف کو اسلام آباد کی لال مسجد والوں کے خلاف آپریشن کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس آپریشن نے عمران خان جیسے مفکروں کی نظر میں مذہبی انتہا پسندوں کو خودکش حملوں کی جانب راغب کیا۔ کئی برسوں کی خوں ریزی کے بعد آپریشن ضربِ عضب کی بدولت بالآخر جنرل راحیل شریف صاحب نے امن بحال کیا۔شہروں کی رونقیں لوٹ آئیں تو غیر ملکی ڈالروں کی مدد سے چلنے والی NGOsمیں گھسے یہ ”لبرلز“ پریشان ہوگئے۔ پاکستان کو بدنام کرنے کے جواز ڈھونڈنا ان کے لئے مشکل ہوگیا۔ دریں اثناءبقول عمران خان، غیر ملکی دباﺅ پر انتخابی قوانین کو سادہ بنانے کے نام پر قانونِ تحفظ نبوت کو ”پارلیمان کو لاعلم رکھتے ہوئے“ تبدیل کرنے کی کوشش ہوئی۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کئی بہت ہی پڑھے لکھے افراد ہماری پارلیمان کے بہت ہی معزز اراکین بھی ہیں۔ ان کی نگاہِ دور بین حکومت کی چالاکی کو بروقت مگر دریافت نہ کرپائی۔ مذکورہ قوانین جب سینیٹ کے روبرو پیش ہوئے تو JUIکے حافظ حمد اللہ نے اس میں ختم نبوت کے حوالے سے چند سقم دریافت کئے۔ پاکستان مسلم لیگ کے راجہ ظفرالحق نے،جو سینیٹ کے قائدِ ایوان بھی ہیں، ان کی تائید کی۔ تحریک انصاف کے سینیٹروں کو مگر خبر نہ ہوپائی۔ شاید وہ اس وقت ایوان میں موجود ہی نہ تھے۔ حکومت ”داﺅ“ لگانے میں کامیاب ہوگئی یہ قوانین جب قومی اسمبلی میں آئے تو تحریکِ انصاف کی خیبر پی کے حکومت میں اتحادی جماعت اسلامی کے طارق صاحب نے حافظ حمد والے اعتراضات دوبارہ اٹھائے۔ تحریک انصاف کو انتخابی قوانین میں لیکن چند دوسری تبدیلیوں نے پریشان کر رکھا تھا۔ اس کا غصہ اور مزاحمت ان تبدیلیوں تک محدود رہی۔ حکومت ایک بار پھر ”غیر ملکی Dictation“کی تعمیل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ پارلیمان سے باہر بیٹھے چند لوگوں کا ایمان مگر اب بھی قائم اور توانا تھا۔ہاہا کار مچ گئی۔اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے اور آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی قیادت بھی ان دنوں ایمان کی دولت سے مالامال شہبازشریف صاحب کے پاس ہے۔ 4اکتوبر2016ءکے دن لاہور کے الحمرا ہال میں انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں اپنے ”قائدِ محترم‘ ‘ سے فریاد کی کہ کابینہ کے اس ”رکن“ کو فارغ کیا جائے جس نے انتخابی قوانین میں ترمیم کے بہانے ہمارے دینی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی۔
پاکستان مسلم لیگ (نون) کے ”قائدِ محترم“ اپنے چھوٹے بھائی کی ”جوشِ خطابت“ میں کہی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ بڑے بھائی کے احترام میں شہباز صاحب کھل کر سامنے آنہیں سکتے۔ انہوں نے مناسب یہی سمجھا کہ علامہ خادم حسین رضوی کی قیادت میں اسلام آباد کی طرف بڑھتے جلوس کو لاہور سے اپنی منزل کی طرف بلا رکاوٹ بڑھنے دیا جائے۔ علامہ صاحب چوک فیض آباد پہنچ کر رک گئے۔ یہ چوک راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملاتا ہے۔ 20 دنوں تک دونوں شہروں کے درمیان رابطہ تقریباََ منقطع رہا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے ”تھانے داروں“ کے مابین مگر یہ طے ہی نہیں ہوپایا کہ ”وقوعہ“ کس کی Jurisdiction میں ہورہا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں ابھی اپنی ذمہ داری محسوس ہی نہ کر پائی تھیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک عزت مآب جج کو گھروں میں محصور ہوئے دیہاڑی داروں اور طالب علموں پر رحم آگیا۔ سپریم کورٹ بھی اس ضمن میں خاموش نہ رہ پایا۔ بنیادی انسانی حقوق کی پائمالی کے سوالات اُٹھے۔ حکومت کو آئینی ذمہ داریاں یاد دلوانا پڑیں۔ زچ ہوکر وفاقی حکومت ایکشن میں آئی تو اس کی پولیس مظاہرین کا مقابلہ نہ کر پائی۔ پاک فوج سے مدد کے لئے درخواست کرنا پڑی۔ عسکری قیادت نے خوں ریزی ٹالنے کے لئے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ زاہد حامد نے اسی ثالثی کو مو¿ثر بنانے کے لئے شہباز شریف صاحب کے حکم پر استعفیٰ دے دیا۔ مظاہرین کو Face Savingوالی ٹرافی مل گئی۔وفاقی حکومت سرنگوں ہوگئی۔
عمران خان صاحب بڑے دل والے ہیں۔ وفاقی حکومت کی مکمل شکست پر چھچھورے انداز میں شاداں نہیں ہوئے۔ کوئی Sadistic Pleasureمحسوس نہیں کیا۔ دھرنا ختم ہوا تو مصلیٰ بچھاکر شکرانے کے نوافل ادا کئے کہ خون ریزی ٹل گئی۔ غیر ملکی ڈالروں پر پلنے والے ”لبرلز“ مگر ریاستی رٹ کے معدوم ہوجانے پر دہائی مچائے چلے جارہے ہیں۔ وفاقی حکومت انہیں خاطر خواہ جواب نہیں دے پارہی۔صدشکر کہ عمران خان صاحب نے اپنے دبنگ انداز میں ”خونی لبرلز“ کی خبر لی۔ اُمید ہے کہ جلد ہی وہ اور تحریک انصاف ان افراد کی ”نشان دہی“ کروانے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے جنہوں نے مبینہ طورپر غیر ملکی ایجنڈے کے اتباع میں قانونِ تحفظ ختم کو انتخابی قوانین کو سادہ بنانے کے بہانے کمزور کرنا چاہا تھا۔ ”نشان زدہ“ افراد کے ساتھ کیا ہوگا؟اس کے بارے میں فی الوقت ہم سب خاموش ہیں۔ ”خونی لبرلز“ عمران خان صاحب کے ہاتھوں بے نقاب ہوجانے کے بعد اب یقینا یہ جاننے کی کوشش کرتے نظر نہیں آئیں گے کہ فیض آبادوالے دھرنے کے بعد لاہور کے مال روڈ پر دئیے دھرنے کو کیسے اور کن شرائط کی بدولت ختم کردیا گیا ہے۔ ”لبرلز“ کو خاموش کروانے میں مدد دینے کے لئے شہباز شریف صاحب کو ایکThank You Noteعمران خان صاحب کو ضرور بھیجنا چاہیے۔ اصولی بات ہے۔پنجاب عددی اکثریت کے بل بوتے پر کسی سیاسی سیاستدان کو وزیر اعظم بنوانے میں حتمی کردار ادا کرتا ہے۔ آئندہ انتخابات کے دوران اس حوالے سے اصل مقابلہ شہباز شریف اور عمران خان کے درمیان ہونا ہے۔ ڈاکٹر اشرف جلالی اور علامہ خادم حسین رضوی Clear Cutلگی اس گیم کو جذباتی نعروں سے Spoilکرسکتے ہیں۔ ان دونوں کو کسی Causeسے محروم کرنا ضروری تھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے
سرنگوں ہوکر گیم کو دوبارہ Clearکرنے کی کوشش کی ہے۔عمران خان صاحب نے ”خونی لبرلز“ کو نشانہ بناکر اب Diversionبھی فراہم کردی ہے۔ سیاست دانوں کی مشکل آسان ہوگئی۔ اقتدار کا کھیل اب محض دوپہلوانوں کے مابین ہی کھیلا جائے گا۔”شہباز، عمران بھائی بھائی-تیسری قوت کہاں سے آئی!“
٭٭٭٭٭