پاکستان میں مستقبل کو دیکھتے ہوئے بروقت فیصلے کرنے کی روایت بہت کم ہی دیکھی گئی ہے ۔ہر صاحب اقتدار اپنا وقت اچھے انداز میں گزارنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ۔اسے پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ وقت کب کیسے بدل جاتا ہے ۔نواز شریف عدالت عالیہ سے نااہلی کا سرٹیفیکیٹ ملنے سے پہلے تین بار اس ملک کے سب سے بڑے عہدے پر براجماں رہ چکے ہیں ۔اور پچھلے کچھ عرصے سے نئی قیادت کے حوالے سے کافی زور شور سے باتیں بھی ہورہی ہیں ۔دیکھنے میں آیا ہے کہ نون لیگ کے راہنما اور ورکر نواز شریف کے ہر حکم کو بخوشی مان لیتے ہیں ۔مگر چند مہینے پہلے جب ایک سیمینار میں انہوں نے مستقبل کی قیادت کے لیے مریم صفدر کا نام لیا تو حال میں بیٹھے سبھی لوگوں نے حمزہ حمزہ کا نام پکارنا شروع کردیا ۔ میاں نواز شریف کے لیے یہ ایک واضع اشارہ تھا کہ نون لیگی ورکر حمزہ شہباز شریف کو ہی مستقبل کے لیے اپنا سیاسی قائد سمجھتے ہیں ۔اگر ملک میں دستیاب موجودہ سیاست دانوں پر نظر دوڑائیں تو عمران خان ایک میچور سیاست دان کی بجائے آج بھی ایک کھلنڈرے کرکٹر ہی نظرآتے ہیں ۔سیاست کو ہر طرح کی کرپشن اور اقربا پروری سے پاک کرنے کا نعرہ لے کے نکلنے والے عمران خان کا نہ صرف اپنا دامن گدلا دکھائی دے رہا ہے ۔بلکہ ان کے ساتھ کھڑے بڑے بڑے نام بھی کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں ۔اسمبلی میں عددی برتری کے چلتے میاں نواز شریف نے پارٹی قیادت تو وقتی طور پر بچا لی ہے ۔مگر جس طرح ان کے خلاف کیس عدالتوں میں چلائے جاتے رہے ہیں ۔ یہ صاف نظر آرہا ہے کہ میاں نواز شریف کو جلد ہی پارٹی قیادت کسی دوسرے کے حوالے کرنا پڑے گی ۔سیاسی قیادت کے لیے جو چہرے اس وقت فریم میں نظر آتے ہیں ان میں حمزہ شہباز شریف کا نام ہی ابھر کے سامنے آرہا ہے ۔ جس وقت جنرل مشرف نے سارے شریف خاندان کو وطن سے باہر دھکیل دیا تھا ۔ شریف فیملی اپنی زندگی وہاں بہت اچچھے انداز میں گزار رہی تھی ۔ ہمارا کپتان مشرف کے حق میں کمپین چلارہا تھا ٟمشرف نے اپنی طاقت کے زور پر مسلم لیگ نون کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا تھا ۔ نواز شریف کے بچے لندن میں بڑی بڑی جائیدادیں بنا رہے تھے ۔ اُ س وقت حمزہ شہباز پاکستان میں موجود رہ کے نون لیگی ورکروں کا حوصلہ بڑھا رہا تھا ۔کہنے والے سرعام کہتے ہیں کہ مشرف نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے اور مسلم لیگ نون کو توڑنے کے لیے شہبازشریف اور حمزہ شہباز پر بہت زیادہ دباو ڈالا تھا اور حمزہ شہباز کو ملک کے سب سے بڑے عہدے کی پیشکش بھی کر دی گئی ۔لیکن حمزہ شہباز نے عہدوں کی بجائے پارٹی اورقیادت کو مقدم رکھتے ہوئے اپنی سیاست بلوغت کا بہترین مظاہرہ کر کے دکھایا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں یہ جواں مرد ایک چٹان کی طرح اپنی قیادت اور پارٹی کے فیصلوں کا احترام کرتا رہے گا ۔کسی بھی حال میں حمزہ شہباز نے کبھی نہ تو ادارو ںکے خلاف بات کی ہے ۔اور نہ کسی موقع پہ اپنی فوج کے خلاف محاذ کھولنے کی کوشش کی ہے ۔بلکہ نون لیگ کی جلاوطنی کے دنوں سے لے کے موجودہ حالات تک اس کے بیانات ہمیشہ پاکستانی فوج اور اداروں کے احترم میں ہی آتے رہیں ۔ جو کہ ایک محبت وطن سیاست دا ن کی پہلی نشانی ہوتی ہے ۔حمزہ شہباز بہترین سیاسی حکمت عملی سے پورے پنجاب میں نہ صرف اپنی پارٹی کے راہنماوں سے رابطے میں رہتا ہے بلکہ وہ نوجوانوں میں نیا جوش پیدا کرنے کے لیے گائے بگائے چھوٹے بڑے شہروں میں نون لیگ کی یوتھ کے ساتھ بھی نظر آتا رہتا ہے ۔آج حمزہ شہبازملکی سیاست کو بہت اچھے طریقے سے سمجھ چکا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ اس ملک میں سیاست کے طور طریقے دنیا سے جدا ہیں ۔یہاں ہارنے والا جیتنے والے کو مبارک باد دینے کی بجائے پہلے دن سے ہی ا س کی ٹانگیں کھینچنے لگتا ہے ۔ الیکشن میں ہارنے کے بعد مخالف کی جیت کو مشکوک بنا نا بہت پہلے سے شروع ہوگیا تھا ۔مگر عمران خان نے ہارنے کے بعد جس جوانمردی سے’’ رولا‘‘ ڈالا ہوا ہے ۔ا سکی مثال کہیں بھی نہیں مل سکتی ہے ۔بات ہورہی تھی مستقبل کی قیادت کے حوالے سے ۔بلاول بھٹو کا بچپن بیرون ملک گزرا ہے ۔اس کی تعلیم بھی ملک سے باہر مکمل ہوئی ہے ۔ اسے آج اپنے عوام سے بات کرنا بھی مشکل لگتی ہے ۔جو اسے لکھ کے دیا جاتا ہے ۔وہ وہی اسٹیج پر آکے پڑھ دیتا ہے ۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ بے نظیر بھی ملک سے باہر ہی پلی بڑھی تھیں ۔ان کی تعلیم بھی دوسرے مغربی ملکوںمیں ہی مکمل ہوئی تھی ۔لیکن یہ یاد رہے کہ بینظیر کا با پ ذوالفقار علی بھٹو تھا۔جبکہ بلاول کا باپ آصف علی زرداری ہے ۔بے نظیر بھٹو کی بے وقت سے حکومت کی باگ دوڑ گو آصف علی زرداری نے حاصل کر لی تھی ۔مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے تک وہ اپنی پارٹی کو پورے ملک سے سمیٹ کہ سندھ تک محدود کراچکے تھے۔اس لیے بلاول ٟمریم اور عمران خان کے مقابلے میں مستقبل کی سیاسی قیادت کے لیے حمزہ شہباز کا نام ہی سب سے اوپر آرہا ہے ۔ ۔حمزہ شہباز اپنے والد شہباز شریف سے بہت کچھ سیکھ چکا ہے ۔تحمل بربادی سوچ سمجھ کے بات کرنیٟ یہ خوبیاں حمزہ شہباز کو ایک مکمل لیڈر بنانے کے لیے کافی ہیں ۔اپنی عملی سیاسی زندگی کے شروعات میں ہی انہوں نے بدترین حالات کا سامنہ بہت جوانمردی اور بہادری سے کر کے دکھا دیا ہے ۔وہ ایک ایسا انسان ہے جو مستقبل میں ہر طرح کے دباو کو برداشت کر کے ملک کو آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔حمزہ کا کاربار اس کے دولت اس کا رہنا سہنا اسی ملک میں ہے ۔وہ ہر حال میں اپنے اداروں کے احترام کی بات کرتا ہے ۔ میاں نواز شریف موجودہ صورتحال کو سمجھتے ہوئے اگر حمزہ شہباز کو خود پارٹی قیادت کے لیے نامزد کر دیں تو اس سے نون لیگ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گی ۔ بے شک حمزہ شہباز شریف اس وقت اپنے مقابل سب سیاسی رہنمائوں سے زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا ہے ۔