چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ نجی سود کے خاتمے کیلئے قانون سازی کا مرحلہ مکمل ہو گیا اور اب قتل کے فتوے دینے والوں کیخلاف سزائیں بڑھائیں گے، ریاست مدینہ کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل سفارشات دیگی، اراکین کونسل پارلیمنٹ جائینگے۔ ماضی میں نظریاتی کونسل کو نظر انداز کیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے مشاورتی ادارے کے طور پر فعال ہونے سے، ملک میں مذہبی منافرت اور افراتفری دور ہو گی۔ ڈاکٹر قبلہ نے کہا اجلاس میں اس بات پر تمام علماء نے اتفاق کیا کہ کسی کو واجب القتل قرار دینا یا کسی کو کافر کہنا کسی فرد یا گروہ کا کام نہیں اور اس حوالے سے تعزیرات پاکستان میں جو سزا ہے اس کو مزید سخت کیا جائیگا۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا ہے کہ ریاست مدینہ کے تصور کا پہلا قدم بِلا سود بینکاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور کابینہ کی یہ خواہش ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے رہنمائی لی جائے۔ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کو موثر انداز میں فعال کرنا چاہتی ہے اسلامی نظریاتی کونسل کو توہین انبیاء روکنے کیلئے عالمی قانون بنانے کے حوالے سے حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کے بعد وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان اور چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کو ڈاکٹر قبلہ ایاز کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل جناب قبلہ ایاز کے آنے سے، حکومت وقت کا قبلہ بھی درست سمت چل پڑا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ’’ریاست مدینہ‘‘ کے بعدپاکستان دوسری ’’ریاست ہے‘‘ جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی ہے۔ ریاست مدینہ کے خدوخال موجودہ ریاست میں واضح نظر آنا چاہئیں اور اب اس کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل 2-A میں واضح طورپر لکھا ہوا ہے کہ ریاست پاکستان میں کوئی بھی قانون اسلام کے خلاف نہیں بنایا جائیگا۔ اس بارے میں ہم متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ ان الفاظ کی بجائے اگر یہ الفاظ آئین پاکستان میں درج ہوں کہ ہر ایک قانون قرآن، سنت یعنی اسلام کیمطابق بنایا جائیگا۔ صرف چند الفاظ کے بدلنے سے آئین پاکستان کی طرف سے بہت ساری ذمہ داری اسلامی قوانین بنانے کے حوالے سے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کو سونپ دی جائیگی گویا شرعی قوانین کا بنانا تو ایسے علماء کے ہی سپرد کیا جا سکتا ہے جو قرآن و سنت سے کما حقہ واقف ہوں۔ ہر قانونی مسودہ پر اسلامی قوانین کے ماہرین سے پہلے رائے لی جائے پھر اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے، اس سے عملاً فائدہ یہ ہوگاکہ ہر قانونی مسودہ، اس پراسیس سے گزر کر پارلیمنٹ میں جائیگا اس سے قوانین کی شرعی حیثیت مسلم ہو گی اور اس سے وقت کی بھی کی بچت ہو گی۔ بلاسود بنکاری کی حوصلہ افزائی ایک مثبت قدم ہے۔ اسی طرح انشاء اللہ تعالیٰ ایک وقت آئے گا کہ یہ نوید بھی سننے کو ملے گی کہ پوری کی پوری معیشت اسلام میں ڈھل چکی ہے جب زکوٰۃ کا نظام، عشر کا نظام، صدقات کا نظام رائج ہو گا۔ اسی طرح معاملات اور معاشرت میں، جو حقوق بیٹیوں اور بیٹوں کے مقرر ہو چکے ہیں وہ بھی اسلام کی روشنی میں ہوں گے اور ان کا دیا جانا متعلقہ حقداروں کیلئے یقینی بنایا جائیگا۔ اسی طرح فحاشی ، عریانی، بے حیائی اور دیگر رذائل کو ختم کرنے کیلئے اسلامی قوانین وضع کئے جائینگے۔ شروعات تو ہو گئی ہے آگے چل کر ارشاد باری تعالی کے تحت ہرچیز کو اسلام کے رنگ میں رنگنا ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین