یہ غالباً مئی 1990کی ایک شام تھی مال روڈ پر واپڈا ہائوس سے ملحقہ فائیوسٹار ہوٹل میں پاکستان کونسل آف انٹرنیشنل افیئرز نامی صحافیوں کی سماجی تنظیم کی گٹ ٹو گیدر تھی جس میں امام صحافت مجید نظامی مجیب الرحمن شامی ، اسد اللہ غالب، رئوف طاہر، تاثیر مصطفیٰ، اور راقم سمیت بہت سے صحافی احباب موجود تھے۔ موضوع زیر بحث لاہور میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ تھا۔ ان دنوں شہر رائے ونڈ کی طرف پھیلنا شروع ہو چکا تھا۔ سولہ سو ایکٹر سکیم جسے علامہ اقبال ٹائون کا نام دیا جاچکا تھا خاصی آباد ہو گئی تھی جبکہ بتیس سو ایکٹر سکیم جس کا نام مولانا محمد علی جوہر ٹائون تجویز کیا گیا تھا۔ اس میں آباد ہونے کا مرحلہ شروع ہو رہا تھا۔ رائے ونڈ سے شہر آنے کے لئے ملتان روڈ اور نہر والی سڑک آمدروفت کا ذریعہ تھیں جبکہ وحدت روڈ موجودہ کشادہ شکل میں نہیں تھی۔ سوال یہ تھا کہ جوہر ٹائون آبادہوجانے کے بعد ٹریفک کا اژدھام کیاگل کھلائے گا؟اس محفل میں اس مسئلے کا کوئی حل سمجھ میں نہیں آیا تھا لیکن جناب مجید نظامی اور مجیب الرحمن شامی اس مسئلے کو مختلف مجالس میں اٹھاتے رہے۔ سو صاحبان اقتدار نے ان کی آواز پر توجہ دی اور نہر پر انڈر پاس بننے کا سلسلہ شروع ہوا ، وحدت روڈ کو بھی لگ بھگ تین گنا کشادہ کردیا گیا لیکن شہر میں بڑھتی ہوئی ٹرانسپورٹ کی سرگرمیوں نے پہیہ کی رفتار کو سست کر دیا ۔ مسافروں کو ویگنوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح بھرا جاتا تھا جبکہ اومنی بس میں سفر ویگن کی نسبت لگ بھگ دو گنا وقت میں مکمل ہو تا تھا۔ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کی اس صورتحال پر معاشرے کا ہر طبقہ پریشان تھا۔ سو یہاں رنگ روڈ کی تعمیر ، ماس ٹرانزٹ ٹرین اور میٹرو بس کے منصوبے بنے۔ خوش قسمتی سے رنگ روڈ اور میٹروبس کے منصوبے بخیر و خوبی پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں جن سے لاہور کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں تاہم ماس ٹرانزٹ ٹرین کا ہوم ورک پنجاب کے ایک وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں 2002-2007میں شروع ہوا ، اس پر بین الاقوامی شہرت کے حامل لوگوں سے سٹڈی کروائی گئی ۔ لیکن بدقسمتی سے منصوبہ شروع نہ ہو سکا ۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے 2015میں چین کے ساتھ اورنج لائن ٹرین کا معاہدہ کیا ۔معاہدے کے وقت اس منصوبے کی لاگت 162ارب 60کروڑ تھی جو کہ 101روپے فی ڈالر کے حساب سے تھی لیکن ڈالر کی قیمت بڑھنے سے لاگت224ارب 30لاکھ روپے تک ہوگئی۔ تاخیر اور دیگر وجوہات کے باعث اب لاگت 324ارب روپے تک پہنچ گئی ہے جبکہ منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کے باعث معاہدے کے مطابق ہمیں 5کروڑ 50لاکھ روپے یومیہ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ ایک اندازے کے مطابق جرمانے کی رقم 2ارب 17کروڑ بنتی ہے۔ دراصل ڈالر کی مسلسل اونچی اڑان نے اورنج لائن ٹرین منصوبے کو شدید مالی نقصان پہنچایا ہے۔کاش اورنج لائن ٹرین منصوبہ بروقت مکمل ہو جاتا اور لاکھوں افراد کو ماہانہ سستے کرائے سے سفر کرنے کی سہولت میسر آ جاتی حکومت جو بھی سبسڈی مسافروں کو دیتی وہ عوام کے دئیے گئے ٹیکسوں کی آمدنی میں ہی سے ادا کی جاتی جس سے عوام مستفید ہوتے لیکن افسوس بروقت تکمیل سے محرومی نے اس منصوبے کو خزانے پر بوجھ بنا دیا ۔ 324ارب 30لاکھ روپے تک لاگت 2018ء میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ معاہدے کے مطابق منصوبہ 27ماہ کے اندر جون 2018میں مکمل ہونا تھاجبکہ اب پنجاب حکومت نے اس کی تکمیل کی نئی تاریخ جولائی 2019ء دے رکھی ہے۔
سپریم کورٹ پاکستان نے عوامی مفاد کے اس منصوبے کی جلد ازجلد تعمیر کے لئے اس منصوبے پر کام کرنے والے ٹھیکیداروں کو ان کی رکی رقوم کی ادائیگی کا حکم دے دیا تھاجس کے بعد امید ہو چکی ہے کہ اب دوبارہ تکمیل کی طرف کام آگے بڑھے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تیز ترین اور سستی ٹرانسپورٹ کی فراہمی سے موجودہ حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان میں ذرائع آمدو رفت کی ترقی کے لئے جتنا بھی کام کیا جائے اتنا ہی کم ہے ۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اورشہروں کے پھیلائو میں اضافے کے ساتھ ساتھ آمدروفت کی سہولتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ پاکستان ریلوے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اگرچہ ریلوے پر لگ بھگ بیس سال خاصے بھاری گزرے لیکن پچھلے دور حکومت سے اصلاح و احوال کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا موجودہ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے اسے آگے بڑھایا ہے حکومت کی 100دنوں کی کارکردگی میں ریلوے کی طرف سے لگ بھگ دس نئی ٹرینوں کا اجراء بھی شامل ہے۔ وزیرریلوے اپنی اس کارکردگی پر بہت شاداں ہیں تاہم انہیں ٹرینوں میں سہولیات کی فراہمی کی طرف بھی بھرپور توجہ مرکوز رکھنا چاہیے ۔ مسافر جتنا آرام دہ سفر کریں گے اتنی ہی دعائیں دیں اور اسی سے یقیناحکومت کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہوگا۔