اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا ہے کہ خیبر پی کے میں پانچ سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے، بلند دعوے کئے جاتے ہیں کہ صوبے کو جنت بنا دیا، کس بنیاد پر خیبر پی کے کو صحت اور تعلیم میں جنت بنانے کی بات کرتے ہیں۔ خیبر پی کے میں مریضوں کو ادوایات میسر نہیں ہوتیں، عدالت نے فضلہ ٹھکانے لگانے کے نظام کی تنصیب کے بارے میں رپورٹ طلب کر لی۔ سپریم کورٹ میں کے پی کے ہسپتالوں کا فضلہ ٹھکانے لگانے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سر براہی میں تین رکنی بنچ نے کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا ذہنی امراض کے ہسپتال میں لوگ جانوروں کی طرح رہ رہے ہیں۔ اس طرح لوگ اپنے گھروں میں جانور اور کتے نہیں رکھتے۔ہسپتالوں میں زائد المیعاد ادویات نکلتی ہیں۔ آپ بلند دعوے کرتے ہیں کہ کے پی کے کو جنت بنا دیا ہے میں تو کہتا ہوں چلیں ہسپتال کی حالت دیکھ لیتے ہیں۔ ذہنی امراض کے ہسپتال کا چند روز میں دورہ کرونگا۔ خیبر پی کے سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا پبلک ہسپتالوں کا سروے مکمل کرا لیا گیا۔ خیبر پی کے میں 63 سرکاری ہسپتال ہیں۔ روزانہ چار ہزار کلو گرام فضلہ ہوتا ہے جبکہ ہماری صلاحیت چھتیس سو کلو گرام فضلہ ٹھکانے لگانے کی ہے، چار سو اسی کلو گرام فضلہ ٹھکانے لگانے کے لیے دو سو ملین روپے مختص کر دیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا پی ٹی آئی والے اتنے برسوں سے کہہ رہے تھے کہ ہسپتالوں کی حالت بہترکر دی ہے۔ پانچ سال سے خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے پانچ برسوں سے ہسپتالوں میں فضلہ ٹھکانے کا نظام نصب نہیں کر سکے، وزیر صحت خیبر پی کے عدالت آتے نہیں اور سیکرٹری صحت آجاتے ہیں۔ عدالت کو بتایا جائے نجی ہسپتالوں کی ویسٹ کس نے اٹھانی ہے۔ ہسپتالوں کے فضلہ سے انفیکشن ہو جاتے ہیں۔ سیکرٹری صحت نے کہا عدالت کو جون تک فضلہ ٹھکانے لگانے کا کام مکمل ہو جائے گا۔ جس پر عدالت نے حکم دیا فضلہ ٹھکانے لگانے کے نظام کی تنصیب کے بارے میں ماہانہ رپورٹ دی جائے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ماہ تک ملتوی کردی۔ آن لائن کے مطابق سپرےم کورٹ مےں گلگت بلتستان کی آئےنی حےثےت سے متعلق کےس کی سماعت کے دوران چےف جسٹس جی بی بار کونسل کے وکےل سلےمان راجہ کے دلائل پر برہم ہو گئے اور رےمارکس دےتے ہوئے کہا موٹروےز پر کھڑے ہو کر اپنی بات نہ کرےں آپ کی ہمت کےسے ہوئی اےسی بات کرنے کی۔ احتےاط سے کام لےں معاملہ کو سنجےدہ نہ بنائےں۔اپنے الفاظ واپس لےں اور ہےرو بننے کی کوشش نہ کرےں ۔ آپ چاہتے ہےں کہ گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سےنٹ مےں نمائندگی دی جائے۔ نمائندگی کےلئے آئےنی ترمےم کی ضرورت ہے جو پارلےمنٹ نے کرنی ہے۔ قانون سازی کےلئے پارلےمنٹ کو ڈکٹےشن نہےں دے سکتے ۔ کےس کی سماعت چےف جسٹس کی سربراہی مےں سات رکنی لارجر بےنچ نے کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتاےا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو بنےادی حقوق اور فنڈز فراہم کےے جائےں گے ۔ جی بی کی حےثےت کے بارے مےں قانون سازی مےںوقت لگے گا۔ جی بی کو پارلےمنٹ مےں تےن سےٹےںدی جائےں گی ۔ جی بی بار کونسل کے وکےل سلےمان راجہ نے عدالت مےںکہا کہ آئےن مےں گلگت بلستستان کانام موجود ہے۔ گلگت بلتستان کو فرسٹ کلاس شہری سمجھاجاتا ہے۔ ےہاں کی آبادی کو سےکنڈ کلاس دی جاتی ہے۔ جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سلےمان راجہ کو اپنے الفاظ واپس لےنے کی ہداےت کی جس پر سلےمان راجہ نے عدالت سے معافی مانگی۔عدالت نے گلگت بلتستان سے متعلق آئےنی ترمےم کاڈرافٹ طلب کرتے ہوئے کےس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی ہے۔نوائے وقت نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں شاہین ایئر لائن کے جہازوں سمیت تمام اثاثوں کی لیز منسوخ ہونے اور سی ای او کے بیرون ملک فرار ہونے کا انکشاف ہوا چیف جسٹس نے سی ای او شاہین ایئر لائن کے بیرون ملک فرار ہونے پر ڈی جی سول ایوی ایشن کی سرزنش کی،، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے سول ایوی ایشن نے اپنے پیسے نہ لیکر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ،عدالت کا شاہین ایئر لائن کے قائم مقام سی ای او کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیدیا۔ سول ایوی ایشن حکام نے بتایا شاہین ایئر لائن س کے ذمہ ایک ارب 34 کروڑ روپے واجب الادا ہیںشاہین ایئر لائن کے ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ، سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شاہین ایئر لائن کے سی ای او کدھر ہیں؟تنخواہ کی عدم ادائیگی پر سول ایوی ایشن کا کیا موقف ہے ؟ جس پر ڈی جی سول ایوی ایشن نے عدالت کو بتایا کہ یہ مسئلہ شاہین ایئر لائن کے ملازمین اور مالکان کے درمیان ہے تنخواہوں کے معاملے پر سول ایو ایشن کا کوئی کردار نہیں، چیف جسٹس نے کہا مسئلہ کیا ہمیں معلوم ہے۔ سول ایوی ایشن کو تنخواہوں کی ادائیگی ریکور کرانا چاہیے تھی جبکہ سول ایوی ایشن نے شاہین ایئر لائن سے اپنی ریکوری بھی نہیں کی، ڈی جی سول ایوی ایشن نے عدالت کو بتایا کہ شاہین ایئر لائن کے مالکان ملک سے جا چکے ہیں جبکہ ایئر لائن کے اثاثے بنکوں سے گروی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چلو سی ای او کو ملک سے فرار کر ادیا، شاہین ائیر لائن کے اثاثے اور ایئر کرافٹ کدھر ہیں جس پر سول ایوی ایشن حکام نے عدالت کو بتایا کہ شاہین ایئر لائن کے ایئر کرافٹ بے کار ہیں اور جہازوں کی لیز منسوخ ہو چکی ہے جبکہ سول ایوی ایشن نے شاہین ایئر لائن سے ایک ارب 34 کروڑ لینے ہیں،، چیف جسٹس نے کہا کہ شاہین ایئر لائن سے کیا گرانٹی لی گئی تھی،1ارب 34کروڑ کی رقم ایک ساتھ تو واجب الادا نہیں ہو گئی سول ایوی ایشن کی غفلت کی وجہ سے اتنی بڑی رقم بن گئی، شاہین ائیر لائن کے ملازمین کی تنخواہ بند ہو گئی ہے، یہ ملازمین کہاں سے کھائیں گے، شاہین ایئر لائن کے اثاثے فروخت کریں، چیف جسٹس نے ملازمین سے مکالمہ کے دوران ریمارکس دیئے کہ یہ سارا کام شاہین ایئر لائن اور سول ایوی ایشن کی ملی بھگت سے ہواصورتحال ایسی ہے کہ ایئر لائن کے اثاثے بھی فروخت نہیں ہو سکتے مالکان کو نوٹس دیں تو اسکی تعمیل کون کریگاجب تک مالکان عدالت میں پیش نہیں ہو نگے تو کاروائی کیسے ہو گی کم از کم عدالت کو شائین ایئر لائن کے مالکان کا ایڈریس تو دیں۔ سی اے اے حکام نے عدالت کو بتایا حج آپریشن کے باعث شاہین ایئر لائن کو آپریشن کی اجازت دی شاہین ایئر لائن مالکان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں،، شاہین ایئر لائن نے عدالت کو بتایا قائم مقام چیئرمین پاکستان میں ہی ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معلوم کریں قائم مقام چیئرمین کدھر ہیں۔ان سے رابطہ کر کے کہیں کل عدالت میں پیش ہوں۔۔ جس کے بعدسماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی گئی ۔
چیف جسٹس / خیبر پی کے