اسلام آباد( سہیل عبدالناصر) بالآخر امریکہ نے اپنی انا بالائے طاق رکھتے ہوئے” ڈو مور“ کے مطالبات کا اعادہ کرنے کے بجائے افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کیلئے پاکستان کی مدد مانگ ہی لی ہے۔ اس ضمن میں بالمشافہ بات چیت کیلئے ، امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کی آج منگل کے روز اسلام آباد متوقع ہے۔ وہ پاکستان کی خارجہ سیکرٹری تہمینہ جنجوعہ کے ساتھ مذاکرات کریں گے جب کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اور وزیر اعظم عمران خان سے بھی ان کی ملاقاتیں متوقع ہیں۔سوال ہے کہ قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کہاں تعطل کا شکار ہوئے کہ امریکہ کو پاکستان سے مدد مانگنی پڑی۔ قطر مذاکرات سے واقف حلقوں کے مطابق امریکہ جس عجلت میں امن معاہدہ چاہتا ہے وہ سرے سے ممکن ہی نہیں کیونکہ معاہدہ برائے معاہدہ نہیں کرنا بلکہ افغانستان کیلئے ایسے نئے سیاسی اور دستوری ڈھانچے کا بندوبست کرنا ہے جس کی بدولت اس جنگ زدہ ملک میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔ امن مذاکرات کی پیشرفت میں حائل دو بڑی رکاوٹیں یہ ہیں کہ امریکہ ، طالبان کی طرف سے فوری جنگ بندی چاہتا ہے جس پر طالبان تیار نہیں۔ طالبان اس جنگی اصول سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جس کمانڈر کی میدان جنگ میں پوزیشن مضبوط ہوتی ہے ، مذاکرات میں بھی اسے برتری ملتی ہے۔ جنگ بندی کر کے طالبان اپنے ہاتھ نہیں بندہوانا چاہے۔ طالبان کو یہ خدشہ بھی ہے کہ جنگ بندی کی صورت میں ان کی اپنی صفوں میں رخنہ پیدا ہو سکتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے جنگ بندی معاہدے کے جواب میں طالبان ، افغانستان سے امریکہ کی زیر سرکردگی لڑنے والے اکتالیس رکنی فوجی اتحاد کا مکمل انخلاء کا ٹائم ٹیبل چاہتے ہیں جس کے بعد ہی ان کی رائے میں بات چیت درست سمت میں آگے بڑھ سکتی ہے۔ افغانستان سے فوجی انخلاءکے بارے میں پاکستان کا ایک واضح موقف ہے کہ کہ افغانستان میں طاقت کا خلاءپیدا نہ کیا جائے بصورت دیگر روسی فوجوں کے انخلاءجیسی صورت دوبارہ پیدا ہو جائے گی جو نئی خانہ جنگی پر منتج ہو گی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے پاکستان کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ افغانستان میں انتقال اقتدار کا ایک قابل عمل منصوبہ پر تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کر کے ہی اتحادی فوجیں واپس جائیں۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر مذاکرات میں ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ طالبان صرف ذلمے خیل زاد کے ساتھ بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ مذاکرات میں پیشرفت کی صورت میں وہ امریکہ کے اعلیٰ اختیاراتی وفد کے ساتھ مذاکرات کریں گے تاکہ اس بات چیت کی ادارہ جاتی اور جامع صورت بن سکے۔ایک زریعہ کے مطابق طالبان یہ توقع کرتے ہیں کہ امن معاہدہ کی صورت میں انہیں ایک بار پھر بلا شرکت غیرے افغانستان کا اقتدار مل جائے، اور اقتدار میں لسانی ، مسلکی اور سیاسی شراکت داروں کا وہ خود انتخاب کریں گے لیکن اب شائد ایسا ممکن نہیں کیونکہ نائن الیون کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہ چکا ہے۔شراکت اقتدار کے معاملہ میں انہیں لچک دکھانی پڑے گی۔ امن مذاکرات میں ایک رکاوٹ افغانستان کا دستور بھی ہے۔ امریکیوں کی کواہش ہے کہ اسی دستور میں ترمیم کر کے قابل قبول بنایا جائے جب کہ طالبان اسلام کی اساس پر نیا دستور خود بنانا چاتے ہیں جس میں وہ تمام جائز آزادیوں کی ضمانت دینے کیلئے تیار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کی مدد کر کے پاکستان کو کیا ملے گا؟ اور پاکستان کیوں کر امریکہ کو امن بات چیت میں مدد فراہم کرے؟پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن اور ایک طاقتور حکومت کے قیام سے پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور افغانستان کے ذریعہ وسط ایشیاء کے توانائی کی دولوت سے مالا مال ملکوں کے ساتھ طے شدہ منصوبوں پر عمل کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
زلمے خلیل زاد