اسلام آباد(نا مہ نگار)احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل ہو گئے۔ نواز شریف کے وکیل آج سے آغاز کریں گے۔ جج ارشد ملک نے کہاکہ ملزموں نے العزیزیہ سٹیل ملز کی دستاویزات کیوں پیش نہیں کیں۔ اس سوال کا جواب دینا ہوگا، وکلا صفائی نوٹ کرلیں،عدالتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عدالت میں جھوٹ بولنا کلچر بن گیا ہے ،مدعی، وکیل اور ملزم سب جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں ،پھر جج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انصاف پر مبنی سچا فیصلہ دے ،یہ تو ایسے ہے کہ کسی کو دال چنا کا سالن دے کر کہا جائے کہ اس میں سے بوٹیاں نکالو۔ پراسیکیوٹر سے مکالمہ میں جج ارشد ملک نے کہاقطری کا بیان ریکارڈ کرنے کیلئے کئی آپشنز ہوسکتے تھے۔قطر کی عدالت کو حمد بن قاسم کا بیان قلمبند کرنے کیلئے لکھا جاسکتا تھا ،خط لکھتے ہوئے قطری شہزادے کو بھی معلوم ہوگا کہ وہ دوسرے ملک کی عدالت کیلئے یہ لکھ رہا ہے۔ قطری کو پتہ ہوگا کہ جس معاملے میں کود رہا ہوں اس ملک کا بھی قانون ہے۔ قطری کے خطوط میں تو میاں شریف کی نہ وِش کا ذکر ہے نہ وِل ہے ، وصیت تو ہوتی بھی تو بھی شریعت کے مطابق اس رقم کو تین بھائیوں میں تقسیم ہونا تھا۔یہ وہ خواہش ہے کہ جس خواہش پر دم نکلے۔ جج محمد ارشد ملک العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی۔ نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائرکی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے نوازشریف نہیں آ سکتے جس کو منظور کر لیا گیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے حتمی دلائل میں کہا طارق شفیع کیلئے ایسے حالات بنا دئیے گئے کہ اس کا پاکستان آنا نا ممکن بنا دیا گیا۔ طارق شفیع جے آئی ٹی میں پیش ہوئے۔طارق شفیع کو کوئی خطرات تھے تو سپریم کورٹ کو یا اس عدالت کو بتاتے ،ملزم کوئی ریکارڈ پیش کردیتے جس سے ظاہر ہو کہ حسن اور حسین دادا کے زیر کفالت تھے۔ملزم کی متفرق درخواست میں میاں شریف کی وصیت کا ذکر ہے ، ملزمان کے مطابق میاں شریف کی وصیت تھی کہ قطری سرمایہ کاری سے حاصل رقم حسین نواز کو دی جائے۔ ملزمان کی طرف سے پورے کیس میں ایک موقف لیا گیا کہ دادا نے سرمایہ فراہم کیا، ملزمان نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کیلئے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ بیرون ملک سے آنے والی رقم کو کچھ بھی کہہ لیں لیکن تحفہ نہیں کہہ سکتے،نوازشریف کو براہ راست ایچ ایم ای سے پیسے منتقل ہوئے ،کمپنی براہ راست کسی فرد کو گفٹ نہیں دے سکتی۔اس موقع پرنیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے کہا اگر گدھوں یا گھوڑے پر رقم قطر منتقل کی گئی تو بھی کوئی ثبوت تو دیتے۔نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے دلائل آگے بڑھاتے ہوئے کہا ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے ہل میٹل کا 88فیصد منافع نواز شریف کو ملا،ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہل میٹل سے ٹوٹل 97فیصد رقم پاکستان آئی۔سپریم کورٹ میں قطری کے پہلے اور دوسرے خط میں تضاد ہے ،پہلے خط میں قطری نے صرف اتنا کہا کہ بارہ ملین درہم کے بدلے ایون فیلڈ فلیٹس دئیے گئے۔دوسرے خط کے ساتھ ورک شیٹ لگائی گئی اور کہا گیا کہ منظوری کے بعد فلیٹس دئیے گئے۔جج نے استفسار کیاآپ کیوں کہتے ہیں کہ قطری خطوط میں بیان کی گئی بات غلط ہے ،قطری کا رولا(ایشو)چلا کہاں سے ؟پہلی بار قطری خط کب پیش کیا گیا؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہاقطری ملزموں کا گواہ ہے لیکن انہوں نے اسے پیش ہی نہیں کیا ،ہم نے قطری کا بیان قلمبند کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پاکستان نہیں آیا۔یو اے ای کے جواب سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ 12ملین درہم کبھی قطر گئے ہی نہیں،معزز جج نے پوچھاخط میں پہلے فلیٹس کا کہا اور پھر جب ملز سامنے آگئیں تو ورک شیٹ میں یہ بھی شامل کرلیا ؟ خواجہ صاحب اس بات کا جواب دیں گے ،جب قطری آیا ہی نہیں تو اس کے خطوط کی کیا حیثیت ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہایو اے ای کے جواب کے بعد قطری خطوط کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ ملزموں کا موقف ہے کہ العزیزیہ سٹیل مل کے تین شراکت دار تھے ،جج ارشد ملک نے پوچھاالعزیزیہ سٹیل مل کے کسی ریکارڈ میں میاں محمد شریف کا نام ہے ؟کیا کوئی ریکارڈ ہوتا ہی نہیں کہ مل کہاں لگی؟ کس نے لگائی؟ نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے کہاالعزیزیہ کی کسی بھی دستاویز میں میاں محمد شریف کا نام نہیں ہے۔ العزیزیہ سٹیل کی فروخت کے معاہدے میں حسین نواز کا نام ہے۔ عدالت نے استفسار کیاکیا ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کیلئے قطری سے رقم نہیں آئی ؟پرسیکیوٹر نے جواب دیاحسین نواز کا کہنا ہے کہ العزیزیہ سٹیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ لگائی ،ملزموں کے مطابق کاروبار شروع کرنے کیلئے سیڈ منی قطری کی طرف سے فراہم کی گئی۔جج ارشد ملک نے کہااور قطری کی طرف سے بھیجے گئے پیسے میں اتنی برکت ہوگئی کہ ہر طرف کاروبار پھیل گیا۔ ایک اور موقع پر جج نے پوچھا ایسی کون سے دستاویزات ہیں جو ملزمان پیش کرسکتے تھے اور نہیں کیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا ملزم کمپنیز کی ان کارپوریشن سرٹیفیکیٹ ،بینک ریکارڈ اور میمورینڈم آف آرٹیکل پیش کر سکتے تھے۔ملزم نوازشریف ٹیکنیکلٹی کے پیچھے چھپنا چاہ رہے ہیں ،حسن اور حسین نوازشریف کے دور کے رشتے دار نہیں بلکہ بیٹے ہیں ،حسن اور حسین نواز کو تو اپنے پیدائش سے پہلے کی باتیں بھی پتہ ہیں لیکن نوازشریف کو نہیں پتہ۔جج ارشد ملک نے پوچھا آہلی اسٹیل سے مشینری خریدنے کا کوئی ثبوت ہے ؟نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا ملزمان کی طرف سے ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔میاں شریف کی بیرون ملک تمام سرمایہ کاری کے بینفشری نوازشریف کے بچے ظاہر کیے گئے۔
العزیزیہ ریفرنس
العزیزیہ ریفرنس سٹیل ملز کی دستاویزات پیش نہیں کیں جواب دینا ہو گا جھوٹ بولنا کلچر بن گیا : احتساب عدالت
Dec 04, 2018