اگر نوٹیفکیشن آپ کے دفتر سے جاری نہیں ہوا تو پھر دیوانوں کے ساتھ مل کر جعلی کام کیا گیا ہوگا :چیف جسٹس

Dec 04, 2018 | 11:02

ویب ڈیسک

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ پاکپتن اراضی کی تحقیقات کرانے کی ضرورت ہے کہ نوٹیفکیشن کیسے جاری ہوا۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ نوٹیفکیشن انہوں نے جاری نہیں کیا۔

سپریم کورٹ میں پاکپتن دکانوں کی تعمیر پر از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں ہوئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے بیان حلفی دیکھا ہے ؟ نواز شریف نے جواب دیا کہ یہ 32 سال پرانا مسئلہ ہے اور اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ 14 ہزار کنال زمین کا معاملہ ہے۔ ایک متاثرہ شخص اپیل میں آیا اور آپ کو منسوب کیا اور عدالتی احکامات کو مسترد کر دیا تھا۔ جس پر جسٹس ہانی مسلم نے نوٹس لیا تھا میں نے نہیں لیکن آپ نے اسے ڈی نوٹیفائی نہیں کیا تو پھر آپ بری الزمہ نہیں تو پھر جس نے ڈی نوٹیفائی کیا اس پر تحقیقات کریں گے۔

نواز شریف نے مؤقف اختیار کیا کہ 1969 کے بعد کوئی بھی نوٹیفکیشن میرے دفتر سے جاری نہیں ہوا ہے اور یہ 32 سال پرانا کیس ہے مجھے تو یاد بھی نہیں ہے۔ سرکاری ریکارڈ دیکھنے کے بعد مجھے علم ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن آپ کے دفتر سے نہیں اوقاف سے جاری ہو گا۔

نواز شریف نے کہا کہ ریکارڈ پر ایسا کوئی نوٹیفکیشن نہیں جو میرے دفتر سے جاری ہوا ہو۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نوٹیفکیشن آپ کے دفتر سے جاری نہیں ہوا تو پھر دیوانوں کے ساتھ مل کر جعلی کام کیا گیا ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب تھے اور آپ کے سیکرٹری جاوید بخاری تھے۔ خط آپ کے سیکرٹری نے لکھا تھا۔ عطاء الحق قاسمی کیس میں بھی آپ کے دستخط نہیں تھے ۔لیکن فواد حسن فواد نے کہا تھا کہ وزیراعظم کو فائل دکھائی تو پھر سمری منظور ہوئی تھی۔ یہ چھوٹی زمین نہیں جو دی گئی جب کہ جاوید بخاری نے بھی کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کا مؤقف ہے کہ پاکپتن اراضی میں انہوں نے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔ اب اس پر تحقیقات کی ضرورت ہے کہ نوٹیفکیشن کیسے جاری ہوا۔ نواز شریف تحقیقاتی فورم کے بارے میں ایک ہفتے میں اپنا جواب دیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر نواز شریف کو مؤقف اپنے وکیل کے ذریعے دینے کی ہدایت کر دی۔

عدالت نے سوال اٹھایا تھا کہ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف نے پاکپتن کی دکانوں سے متعلق نوٹیفکیشن واپس کیوں لیا تھا جس کا جواب نواز شریف کے وکیل نے گزشتہ سماعت میں جمع کرایا تھا۔ جس میں نواز شریف نے نوٹیفکیشن کی واپسی کے متعلق لاعلمی ظاہر کی تھی۔

نواز شریف کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وکیل کے جواب پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ وکیل صاحب آپ کو پتا بھی ہے کیا جواب جمع کروا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ وکیل صاحب کیا آپ نواز شریف سے کبھی ملے بھی ہیں۔ آپ نے تو تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کا سیاسی کیریئر ہی داؤ پر لگا دیا ہے۔

عدالت نے وضاحت کے لیے نواز شریف کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

مزیدخبریں