خالد یزدانی
ایک سنجیدہ اور منجھے ہوئے سیاست دا ن میر ظفر اللہ خان جمالی دو دسمبر کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ مرحوم بطور وزیر اعظم21 نومبر 2002ء تا 26 جون 2004ء اس منصب پر فائز رہے ۔ یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کے گاؤں روجھان جمالی میں پیدا ہونے والے میر ظفر اللہ جمالی نے ابتدائی تعلیم روجھان جمالی میں ہی حاصل کی۔ اس کے بعد سینٹ لارنس کالج گھوڑا گلی مری، ایچی سن کالج لاہور اور 1965ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ظفر اللہ جمالی انگریزی، اردو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو زبان پر عبور رکھتے تھے ان کی پہچان ایک سنجیدہ اور منجھے ہوئے سیاست دان کی رہی ۔جمالی خاندان قیام پاکستان سے ہی ملکی سیاست میں سرگرم رہا ۔ ظفر اللہ جمالی کے تایا جعفر خان جمالی ،بابائے قوم قائداعظم کے قریبی ساتھیوں میںسے تھے۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ، ایوب خان کے خلاف اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ان کے علاقے میں آئیں تو ظفراللہ جمالی محافظ کے طور پر ان کے ہمراہ تھے۔ جمالی خاندان کے افراد ہر دور میں صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔ ان کے آبائی گاؤں روجھان جمالی سے تین وزراء اعلیٰ بلوچستا ن بھی رہے ہیں ۔جن میں تاج محمد کے علاوہ ظفراللہ کے بھتیجے جان جمالی بھی شامل ہیں۔ میر ظفراللہ کے والد میر شاہنواز جمالی پرانے مسلم لیگی رہنما میر جعفر خان جمالی کے بھائی تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ ظفراللہ کی شادی خاندان میں ہی ہوئی جس سے ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ان کے فرزند ، فریداللہ والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میںقدم رکھا ، اور رکن قومی اسمبلی منتخب ہو ئے ۔17 اپریل 1967ء کو جعفر خان جمالی کی وفات کے موقع پر جب ذو الفقار علی بھٹو روجھان جمالی گئے تو ظفر اللہ جمالی کے والد شاہ نواز جمالی سے انہوں نے کہا تھا کہ اس گھرانے سے سیاست کے لیے مجھے ایک فرد دیں ، جس کے جواب میں شاہ نواز جمالی نے ظفر اللہ جمالی کا ہاتھ ذو الفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ یہیں سے ظفر اللہ خان جمالی نے باقاعدہ عملی سیاست میں قدم رکھا۔ میر ظفر جمالی 1970ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار کھڑے ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1977ء میں بلا مقابلہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر خوراک اور اطلاعات بنائے گئے ۔ 1982ء میں انہیں وزیر مملکت خوراک و زراعت بنایا گیا۔ 1985ء کے انتخابات میں وہ نصیرآباد سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔جس کے بعد 1986ء میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میںانہیں پانی اور بجلی کا وزیربنایا گیا۔ 29ء مئی 1988ء کو جب صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا تو میر جمالی کونگران کابینہ میں وزیر ریلوے بنا دیا گیا ۔ 1988ء کے انتخابات میںوہ صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے۔بعد میں انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوکر صوبائی اسمبلی کی رکنیت برقرار رکھی۔ 1988ء میں وہ بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ بھی رہے ۔ 1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار بنائے گئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔ جبکہ 1993ء میں وہ ایک بار پھر کامیاب ہو گئے۔ 9 نومبر 1996ء تا 22 فروری 1997ء کو انہیںدوبارہ بلوچستان کا نگران وزیراعلیٰ مقرر کیا گیااور 1997ء میں وہ سینٹ کے ممبر منتخب کیے گئے۔
1999ء میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد جب مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ گئی تو میر ظفر اللہ جمالی مسلم لیگ (ق) کے جنرل سیکریٹری بن گئے۔ الیکشن 2002 کے نتیجے میں ان کو پارلیمنٹ نے 21 نومبر 2002 میں وزیر اعظم منتخب کر لیا اور یوں انھوں نے پاکستان کے 15وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔اپنے وزارت عظمیٰ میں ظفر اللہ جمالی نے کئی وسط ایشیائی، خلیجی ممالک سمیت امریکا کا بھی دورہ کیا۔ جب پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی امریکا منتقلی کا معاملہ سامنے آیا تو انھوں نے کاغذات پر دستخط سے انکارکر دیا تھا ۔ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ ان کے دور میں کوئی بڑا بحران سامنے نہیں آیا ۔ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بننے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے لگے تھے ، انھوں نے دورانِ حکومت صدر کی پالیسیوں کی مکمل حمایت بھی کی،لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ہمیشہ ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کے لیے بھی کوشاں رہے اور جمہوریت کی بحالی کی طرف روبہ عمل رہنے کا وعدہ کیا تاہم وہ اپنی یہ پوزیشن برقرار نہ رکھ سکے اور 26 جون 2004ء کو وزارت عظمی کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کے لیے اقتدار پہلے دن سے ہی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوا تھا ۔اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے ظفر جمالی سے اختلاف کا ایک اہم واقعہ اپریل 2004ء میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے بل کی منظوری کے وقت پیش آیا۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل کا مسودہ قانون وزیر اعظم جمالی نے کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کر دیا اور کابینہ میں کہا کہ ’ہم پر ذمہ داری آگئی ہے اور ہم اسے اس طرح منظور کریں کہ پارلیمینٹ کا وقار قائم رہے‘۔ظفر اللہ جمالی کی کوششوں سے نیشنل سکیورٹی کونسل کا اصلی مسودہ قانون جسے پرویز مشرف کے ساتھیوں نے تیا رکیا تھا اس میں تبدیلی کی گئی۔ اپریل 2004ء میں نیشنل سیکورٹی کونسل کا بل منظور ہوتے ہی پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے ارکان وفاقی وزراء فیصل صالح حیات اور راؤ سکندر اقبال نے کھلے عام پرویز مشرف سے کہا کہ وہ وردی نہ اتاریں اس سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔ بظاہر نرم مزاج جمالی اندر سے قدرے سخت سیاست دان ثابت ہوئے- انہوں نے آخر تک پرویز مشرف کی وردی کے معاملے پر حمایت کرنے سے انکار کر دیا اور بطور وزیر اعظم نازک سیاسی معاملات پر اپنی آزاد رائے پر اصرار کیا ۔سیاست دان ہونے کے علاوہ میر ظفر اللہ جمالی ایک سپورٹس مین بھی رہے ۔ جوانی کے دور میں انہوں نے سندھ بھر میں والی بال کے کئی ٹورنامنٹ منعقد کروائے اور یوں اس صوبے میں اس کھیل کو مقبول کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ خود والی بال کے اچھے کھلاڑی اور کرکٹ اور ہاکی کے شوقین تھے ۔ 2006ء سے 2008ء تک وہ پاکستانی ہاکی فیڈریشن کے صدر اور مختلف ادوار میں انتخابی بورڈ کے رکن بھی رہے ،اور کھیلوں کے حوالے سے قابل قدر خدمات انجام دیں ۔قوم میر ظفراللہ جمالی کی قابل قدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی ،جنہوں نے دل و جان سے ایک سچے اور محب وطن کے طور پر اپنا کردار ادا کیا ۔