ہماری زندگیوں پر طاری پت جھڑ کے موسم کو ابھی تک قرار نہیں آیا سو ہمارے بزرگوں‘ دوستوں‘ کرم فرمائوں اور عزیزوں‘ پیاروں کی اچانک اس جہانِ فانی سے رخصتی کے مناظر نمناک آنکھوں کے سامنے آکر انسانی بے بسی کے کچوکے لگاتے ہی چلے جارہے ہیں۔ اور مجھے اپنے اس شعر کا کرب ہی کھائے جارہا ہے کہ…؎
ٹُر دے جاندے نیں کیوں لوک
نہ کوئی جھڑا‘ نہ کوئی گّل
دو روز قبل اپنے محترمین عبدالقادر حسن اور سید ناظم حسین شاہ کی یکے بعد دیگرے وفاتِ جانکاہ نے لہوولعب میں ڈوبی حیاتِ فانی کی اصل حقیقت کے جھٹکے لگائے تو گزشتہ روز سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کے سانحۂ ارتحال نے مزید جھنجوڑ دیا۔ بھائی صاحب! ہماری اصل کہانی تو یہی ہے کہ…؎
اپنے پائوں پہ آتا ہے نہ اپنے پائوں پہ جاتا ہے
تیری کیا اوقات ہے بندے‘ جس پہ تو اِتراتا ہے
سو ایسے ہی ہم بے بس انسانوں میں سے ہر ایک نے اپنے متعینہ وقت پر اس جہانِ فانی سے رخصت ہو جانا ہے۔ زندگی پر کسی کا کوئی زور ہے نہ اختیار۔ ایک پل میں سارا منظر تبدیل ہو جاتا ہے اور یہ حقیقت اٹل ہے کہ…؎
لائی حیات‘ آئے‘ قضا لے چلی‘ چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
بس اب چل چلائو کچھ شدت اختیار کرگیا ہے۔ ان رخصت ہونے والوں میں کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں کہ بھلائے نہیں بھول پاتے۔ اور یاد وہی رہتے ہیں جن کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے انسیت اور لگائو زیادہ ہوتا ہے اس لئے دنیا میں ایسے رہیئے کہ لوگ آپ سے بے ساختہ محبت کریں اور آپ کے رخصت ہو جانے پر دل میں حقیقی کرب محسوس کریں۔ حیاتِ فانی رخصت ہوتے ہوئے کسی کو امر کر جائے تو اسی کو حاصلِ زندگی سمجھ لیجئے…؎
وارث شاہ اوہ جگ تے سدا رہندے
جنہاں کیتیاں نیک کمایاں نیں
میر ظفر اللہ جمالی ہفتہ پہلے علالت کے باعث راولپنڈی کے کارڈیالوجی ہسپتال میں داخل ہوئے اور ونٹی لیٹر پر چلے گئے‘ اگلے روز انکی رحلت کی افواہ پھیل گئی مگر انکے رخصت ہونے کا متعینہ وقت کچھ اور تھا سو وہ دو دن مزید اس کارگاہِ حیات میں سانسیں لیتے رہے اور پھر بلاوا آنے پر لبیک کہتے رخصت ہوگئے۔ ان کا شمار بلاشک و شبہ شریف النفس اور اچھی قدروں والے سیاست دانوں میں ہوتا تھا۔ بلوچستان کی محرومیوں کے ڈھنڈورے والی فضا میںمیر ظفراللہ جمالی ان چند سیاست دانوں میں شامل تھے جو دشمنوں کے بنائے گئے پاکستان مخالف ماحول میں بلوچستان میں پوری توانائی کے ساتھ پاکستان کی وکالت کرتے ہوئے اس کا جھنڈا بلند رکھتے تھے۔ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ سے وزارت عظمیٰ تک کی انکی کامرانی انکی اقدار والی سیاست کی گواہ ہے۔ مجھے انکی وزارت عظمیٰ کے دور میں پی ایف یو جے کے صدر کی حیثیت سے پورے ملک کے نمائندہ صحافیوں کو وزیراعظم ہائوس اسلام آباد لے جا کر ان سے ملاقات کرانے کا شرف حاصل ہوا۔ انکی کابینہ کے رکن میاں خورشید محمود قصوری میرے دیرینہ دوستوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے بطور خاص اس ملاقات کا اہتمام کرایا اور میرظفراللہ جمالی اس تپاک سے ملے کہ مہمان نوازی کے انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ اسکے بعد بھی ان سے جہاں بھی ملاقات کا موقع ملا انہوں نے مجھے میرے نام کے ساتھ پکار کر اپنائیت کا مظاہرہ کیا۔ وہ قومی اسمبلی کے ایوان میں عددی اکثریت کے ساتھ ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ بے شک حکومت جرنیلی آمر مشرف کی ساختہ مسلم لیگ (ق) کی تشکیل پائی تھی مگر وہ منتخب وزیراعظم تو تھے۔ پھر بھی انہوں نے اپنی خداداد شرافت کی بنیاد پر اس وقت وزارت عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہونے میں دیر نہ لگائی جب مشرف کو ایک امپورٹڈ شخصیت شوکت عزیز کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر لانے کی مجبوری لاحق ہوئی۔ اس مرحلے میں بھی سیاسی قدروں والی ایک دوسری شریف النفس شخصیت چودھری شجاعت حسین نے مشرف کا ہاتھ بٹایا جنہیں میرظفراللہ جمالی کے مستعفی ہونے کے بعد قومی اسمبلی کے ہائوس میں ہی ووٹوں کے ذریعے باقاعدہ وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ اس بنیاد پر وہ بھی چاہتے تو ہائوس کے اعتماد کے ساتھ اس اسمبلی کی پوری ٹرم تک وزیراعظم کے منصب پر برقرار رہ سکتے تھے مگر شرافت کی سیاست نے اُف کیا نہ تف۔ بس دو ماہ گزارے اور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو کر میدان شوکت عزیز کیلئے خالی چھوڑ دیا۔ آج اس شوکت عزیز کو کون جانتا ہے جبکہ چودھری شجاعت حسین اور میرظفراللہ جمالی آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ شوکت عزیز زندہ ہو کر بھی فراموش کردہ ہیں اور میر ظفراللہ جمالی اس جہانِ فانی سے رخصت ہو کر بھی اپنی یادوں کے خزانے چھوڑ گئے ہیں۔
ہمارے پیشۂ صحافت میں عبدالقادر حسن بھی اقدار نبھانے والی شخصیت تھے۔ وہ کالم نگاری میں ہمیشہ میرے آئیڈیل رہے۔ نوائے وقت سے انہوں نے صحافت کا آغاز کیا‘ رپورٹر کی حیثیت سے لاہور کی ڈائری لکھتے لکھتے وہ پختہ کالم نگاری تک آگئے۔ محترم مجید نظامی کے ساتھ انکی عقیدت اور نیازی مندی اس انتہاء کی تھی کہ انہوں نے ندائے ملت نکالا تو وہ نظامی صاحب کی انگلی تھام کر وہاں چلے گئے اور بطور چیف رپورٹر خدمات سرانجام دینے لگے۔ میں 1981ء میں نوائے وقت کا حصہ بنا تو کالم نگاروں کی صف میں عبدالقادر حسن کا طوطی بولتا تھا۔ 1982ء میں جب میں رپورٹنگ سیکشن میں آیا تو مجید نظامی صاحب نے عبدالقادر حسن کو ایڈیٹر رپورٹنگ کی ذمہ داری بھی تفویض کردی ہوئی تھی۔ اس وقت سید سجاد کرمانی نوائے وقت کے چیف رپورٹر تھے تاہم یہ سیٹ اپ زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا اور تھوڑے ہی عرصہ بعد سید انور قدوائی چیف رپورٹر کے منصب پر واپس آگئے۔ قادر حسن صاحب کا اصل فیلڈ کالم نگاری ہی تھا جس میں وہ اپنی زندگی کے آخری سانسوں تک پوری شان بان اور عزت و آبرو کے ساتھ نمایاں حیثیت سے موجود رہے۔ وہ نوائے وقت کو اپنا گھر اور انکی اہلیہ رفعت آپا نوائے وقت کو اپنا میکہ کہا کرتی تھیں۔ (جاری)
آہ! ظفراللہ جمالی‘ قادر حسن اور ناظم شاہ
Dec 04, 2020