" کشمیر کی آزادی ۔ مجید نظامی کی دُعا "   

’’میرا دل چاہتا ہے کہ مجھے ’’میزائل ‘‘ کے ساتھ باندھ کر انڈیا پر پھینک دیں۔‘‘
ــ’’انڈیا ضرور چلوں گا مگر تب جب آپ ٹینک پر بیٹھ کر جا ئیں گے۔‘‘
’’مقبوضہ خون آلود وادی‘‘ کی آزادی ’’قبلہ مجید نظامی ‘‘ کی دُعا تھی اور ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ تقاریر سے ہٹ کر عملی اقدامات سمت سفر کا آغاز ۔ لمحہ موجود کی حکومت کے جرات مندانہ اعلانات ۔ کشمیر ہائی وے کا نام ’’سری نگر‘‘ رکھنے کا فیصلہ ۔ قوم خوش ہوگئی کہ مزید بڑا ایمان افروز حکومتی قدم۔ ’’مقبوضہ وادی‘‘ کو پاکستانی نقشے کا حصہ بنانے کی منظوری ۔ پنجاب کے تمام ڈویژنز میں ایک ایک سٹرک کا نام ’’سری نگر‘‘ رکھنے کا اعلان ۔ میری تجویز ہے کہ پاکستان کی تمام معروف۔ مصروف شاہراہوں کو ’’شہدائے کشمیر ‘‘ کے نام سے منسوب کر دیں اور تدریسی نصاب میں ’’سال وائز ‘‘ بھارتی مظالم کے واقعات بمعہ تصویروں کے شامل کر دیں۔ ’’کشمیر ہماری رُوح‘‘ کے عنوان سے الگ مضمون تعلیمی اداروں میں پڑھایا جائے ۔ انڈین جبری تسلط کا فوری خاتمہ ہر پاکستانی کی خواہش ہے۔ وسائل درکار ہیں یا جان۔ ہر شخص حاضر ہے۔ ’’سیاچن ہے یا لداخ‘‘ سب ہمارے علاقے ہیں ۔ سب پاکستانی ہیں۔ ایک قوم ہیں ۔ کشمیر ہمارا دل ہے۔ جسم پاکستان تو روح کشمیر ۔ تو ہم اپنی سانس کو یوں سفاک بھیڑیوں کے پنجہ استبداد میں کیسے تڑپتا چھوڑ سکتے ہیں ؟ 
خطہ کی سلامتی ۔ سکون ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کی آزادی میں مضمر ہے۔ سب بخوبی جانتے ہیں کہ کِسی مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے۔ ہمارے لاکھ سیاسی اختلافات ہوں جہاں بات ہو ’’ازلی ۔ عیار دشمن‘‘  کی ۔ وہاں ہم سب ایک ہیں ۔ کرکٹ ہو یا جنگ ۔ پوری قوم ایک نکتہ پر متحد ۔ متفق ہے۔ اتنا ظلم بڑھ گیا ہے کہ اب تو دل چاہتا ہے کہ جنگ ہو ہی جائے تاکہ محصور ۔ مظلوم کشمیریوں پر رواں تشدد کا خاتمہ تو ہو ۔ ایک سال بیت گیا کشمیر کو بدترین جیل میں تبدیل ہوئے۔ کہنے کو وقت کتنی جلدی گزر گیا پر جب کشمیری قوم کی حالتِ زار دیکھیں تو دل ٹکڑوں میں کٹ جاتا ہے۔ دنیا کا سب سے طویل کرفیو۔ صرف کرفیو نہیں پوری دنیا کے ماتھے پر خون کی چھینٹیں اُڑاتا سفاک ترین ’’لاک ڈاؤن‘‘ ۔ ایسا لاک ڈاؤن جس میں کوئی وقفہ نہیں ۔ کوئی کسی بھی لمحہ باہر نہیں نکل سکتا حتیٰ کہ گھروں میں مقید لوگ مقامی سطح پر بھی باہم رابطہ سے محروم ہیں ۔ یہ محصوری نہیں باقاعدہ پلاننگ تحت قتل عام ہے۔ بلا اشتعال کاروائیاں اِس طرف جاری ہیں تو چنار کے اُس پارکسی بھی وقت تلاشی۔ نہ دن کی پرواہ نہ رات کے اندھیرے کا لحاظ۔ محاصرے ۔ راستوں کی ناکہ بندی ۔ جائیداد ۔ کاروبار سے جبری بے دخلی ۔ کیا یہ سب ’’امن پرور ذہن‘‘ کے کام ہو سکتے ہیں ؟ دیر سے سہی پر موسم بدلتا ضرور ہے غم کا ہو یا آزمائش کا۔ ہر دو کے نصیب میں کروٹ لینا لکھا ہے۔ 
دہشت گردی کی تمام وارداتوں میں انڈیا ملوث ہے۔ شواہد ہیں ۔ حقائق خود ’’اہل انڈیا‘‘ بیان کرتے ہیں ۔ سچ خود ’’مودی‘‘ کے دیس سے بول رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ بیرونی دنیا اِس طرف زیادہ دھیان نہیں دے رہی بلکہ دینا نہیں چاہتی ۔ صرف پاکستان اور کشمیر نہیں بلکہ تمام سرحد جُڑے ہمسائے بھی نالاں ہیں ۔ دہشت گردی ۔ سازشوں کی آبیاری ۔ سانحات کی پلاننگ۔ وقوع پذیری میں ’’ہمسایہ‘‘ ملوث ہے۔ بنیادی ماسٹر مائنڈ ہے۔ سہولت کاروں کی جنت ۔سہولت کاری کا گڑھ ہے۔ ایک ایسا ملک جس کے اپنے شہری ریاست کے ہاتھوں محفوظ نہیں ۔ اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ۔ عام ہندو اشرافیہ کے استحصال میں مبتلا۔ وہ روشن چہرہ کہاں سے ہوسکتا ہے ۔ خود کو جمہوریت کی ماں کیسے قرار دے سکتا ہے ۔ بلکہ وہ خطے میں دہشت گردی کی ماں ہے۔ دشمن کی کینہ پرور وارداتوں کے تناظر میں عالمی فورم پر ہماری طرف سے بر محل ۔ نہایت موزوں لقب دیا گیا تھا۔ صورتحال کتنی خطرناک ہے ۔ کوئی ملک ۔ کوئی فورم بے خبر نہیں ۔ فورسز زکے بے رحمانہ سلوک ۔ تشدد سے شہید ہونے والوں کی خبریں دنیا بھر میں برابر پہنچ رہی ہیں ۔ ساتھ ہی تشدد زدہ تصویریں بھی ۔ ہر ظلم سے انکار ۔ ہر تصویر کو جھوٹی کہہ کر جھٹلانے سے سچ کو دبانا ممکن ہوتا تو جدوجہد آزادی کی جنگ لڑتے سکھ۔ تامل ۔ کشمیری کبھی بھی یورپی ۔ امریکی سٹرکوں پر احتجاج کرتے نظر نہ آتے ۔ ہم متحد ہیں ۔ یکسو ہیں کہ آزادی کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ’’دیوارِ مزاحمت‘‘ کے افتتاح سے پاکستان کے ہر کوچے ۔ گلی میں نکلتے جلوس ۔ ریلیاں اِس کا ثبوت ہیں ۔ سیاسی و عسکری قیادت +قوم ایک صفحہ پر ہے۔ اب سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے ۔ نقشہ کی منظوری اولین وقت میں ہونی چاہیے ۔ ’’80سال‘‘ کی اخلاقی مدد سے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عملی پیش رفت وقت کا تقاضا ہے۔ اِس باب میں کوئی رائے ۔ سطر متنازعہ فیہ نہیں ۔ 
انڈین مہم جوئی کی سوچ خطے کو ایک بھیانک ایٹمی جنگ کے قریب لے جا رہی ہے۔ انڈین لیڈرشپ میں قیادت کی تمام صفات ناپید ہیں۔ صرف نام کے لیڈر۔ عالمی طاقتوں کو دیکھنا چاہیے کہ اس ٹائپ کی قیادت صرف گلی۔ محلوں کے مسائل حل کروا سکتی ہے۔ پورے خطے کو ابتدائی جماعت کے طالب علموں کے اوپر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پراکسی وار ایک بہت بڑے سانحہ کو جنم دے سکتی ہے۔ عالمی برادری انڈیا کو نہ صرف سمجھائے کہ وہ اعتدال ۔ توازن کے دائرے میں واپس آئیں بلکہ قابو کریں۔ پاکستان کمزور نہیں اور نہ ہی اب 1971ء والے حالات ہیں۔ ہماری فوج پہلے سے زیادہ مضبوط اور منظم لڑی میں بندھی ہوئی ہے۔ قوم۔ دانشور اس معاملہ میں جذباتی اور یکسو ہیں کہ اب انڈیا کی کسی دھمکی۔ بزدلانہ کارروائی کو برداشت نہیں کرنا۔ بھارت سے پر امن تعلقات کی خواہشات اب ہمسایے کی بلیک میلنگ۔ گھناؤنی وارداتوں کے بھاری پتھر تلے کچلی جا چکی ہے۔ امن ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے مگر آزادی۔ قومی خودمختاری کی قیمت پر نہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...