’’ قائدؒ  ؔکا پاکستان ؔ۔فضل اُلرؔحمن پردھانؔ ، اَلامانؔ !‘‘(1)

معزز قارئین ! 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ ) قومی اسمبلی کی رُکنیت کا انتخاب ہار گئے تھے لیکن اِس کے باوجود  میاں نواز شریف ‘ میاں شہباز شریف ‘مریم نواز صاحبہ کی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اُنہیں 4 ستمبر 2018ء کے صدارتی انتخاب میں ’’اپنا امیدوار ‘‘نامزد کِیا گیا لیکن فضل اُلرحمن صاحب یہ انتخاب بھی ہار گئے تھے لیکن اُنہوں نے ہار نہیں مانی۔ مختلف اوقات میں ایک دوسرے کے ’’حریف اور حلیف ‘‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے ایک بار پھر ایک دوسرے سے ’’ اِک مِک ‘‘ ہو کرفضل اُلرحمن صاحب کو ’’پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ‘‘ (P.D.M) کا صدر ( President / پردھانؔ ) منتخب کرا دِیا۔ 
ہندی اور پنجابی زبان میں ’’ سردار ، صدر نشین، وزیراعظم ، فوج کے سربراہ اور چودھری ‘‘ کو پردھان ؔ کہتے ہیں ۔ ہندی زبان میں صدرِ مملکت کو ’’پرجا پتی ‘‘ اور وزیراعظم کو پردھان منتری کہا جاتا ہے اور کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کو’’ پرانت منتری‘‘ ۔ متحدہ ہندوستان کے مسلمان جب اپنے لئے الگ وطن کے حصول کے لئے قائداعظمؒ کی قیادت اور ’’آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے پرچم تلے جدوجہد کر رہے تھے تو’’ جمعیت عُلمائے ہند‘‘ کا ایک گروہ نے ہندوئوں کی متعصب سیاسی جماعت ’’ انڈیشن نیشنل کانگریس ‘‘ کے باپو شری موہن داس کرم چند گاندھی ؔ کے چرنوں میں بیٹھ کر ، پاکستان کی بھر پور مخالفت کی اور اُنہوں نے قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کا فتویٰ بھی دِیا تھا ۔ اُس ’’گروہ ‘‘ کو ’’ کانگریسی مولوی‘‘ کہا جاتا تھا ۔ 
فضل اُلرحمن صاحب کے والد ِ مرحوم، مفتی محمودؔ اُن کانگریسی مولویوں کی باقیات ؔ کے سَرخیل ؔتھے ، قیام پاکستان کے بعد اُن کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم ( یعنی ۔ کانگریسی مولویوں کی باقیات ) پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے! ‘‘ لیکن پھر ’’چشم فلک ‘‘ نے دیکھا کہ ’’ وہی مفتی محمود (یکم مارچ 1972ء سے 15 فروری 1973ء تک ) قائداعظمؒ کے پاکستان کے ’’ صوبہ سرحد ‘‘ ( موجودہ خیبر پختونخوا ) کی وزارتِ عُلیہ (پرانت منترالے ) کا جھولا جھولتے رہے ؟
’’1965 کا صدارتی انتخاب ! ‘‘ 
 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ( صدر پاکستان کنونشن مسلم لیگ ) فیلڈ مارشل ، صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں ، قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ٔ  محترمہ فاطمہ جناح ؒ ( پاکستان کونسل مسلم لیگ ) کی امیدوار تھیں اور جب ’’مفسرِ نظریہ ٔ پاکستان ‘‘ جنابِ مجید نظامی نے اُنہیں ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا تومتحدہ اپوزیشن کی جماعتوں نے مادرِ ملّتؒ کو اپنا مشترکہ امیدوار بنا لِیا تھا ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ اِس خوف سے کہ کہیں سرکاری ملازم ( فیلڈ مارشل ) کی حیثیت سے پاکستان الیکشن کمیشن اُنہیں الیکشن کے لئے نا اہل قرار نہ دے دے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنے دو وزراء محمد شعیب اور ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا "Covering Candidate" بنا لِیا تھا۔ 
’’ عورت کی سربراہی ! ‘‘ 
معزز قارئین ! جمعیت علماء اسلام کے سربراہ کی حیثیت سے مفتی محمود صاحب نے یہ فتویٰ دِیا تھا کہ ’’ کوئی عورت اسلامی مملکت کی سربراہ نہیں ہو سکتی! ‘‘ مفتی محمود صاحب اور اُن کی جماعت نے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی حمایت کی تھی لیکن یہ بات بھی "On Record" ہے کہ ’’ جب مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2 بار وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تو فضل اُلرحمن صاحب نے (اپنے والد ِ مرحوم ) کے فتوے کے بارے میں ’’ اجتہاد‘‘ کِیا اور وہ، وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی مسلسل حمایت کرتے رہے ؟ پھر دامادِ بھٹو ، آصف علی زرداری نے صدارت کا منصب سنبھالتے ہی (بہ آوازِ بلند )یہ اعلان کیا تھا کہ ’’ کیوں نہ ہم مسئلہ کشمیر کو30 سال کے لئے "Freeze" (منجمد) کردیں ؟ ‘‘ ۔ 
’’ چیئرمین کشمیر کمیٹی ! ‘‘ 
صدر آصف علی زرداری کے دَور میں اور اُن کے بعد تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف کے دَور میں فضل اُلرحمن صاحب ( وفاقی وزیر کے اختیارات کے ساتھ ) چیئرمین کشمیر کمیٹی رہے ۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے فضل اُلرحمن صاحب نے بھارت کے ’’ دارالعلوم دیو بند ‘‘ کے علاوہ کئی ملکوں کا دورہ کِیا۔ اُنہوں نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے کیا کِیا اور اُن کے وفد میں شامل دوسرے ارکان نے کتنی رقم قومی خزانے سے لے کر چرچ کی ؟…
’’ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟‘‘
…O…
 ’’ علامہ اقبالؒ اور قائداعظم ؒ !‘‘
معزز قارئین ! علاّمہ اقبالؒ جب وکالت کرتے تھے تو وہ  اپنی اور اپنے خاندان کی ضرورت کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور باقی اپنے دوست ، شاگرد وکلاء کو دے دیتے تھے اور قائداعظمؒ نے جب، گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالا اور اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا۔ اب صورت یہ ہے کہ ’’مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے داماد ، مرحومہ بے نظیر بھٹو کے ’’ مجازی خُدا ‘‘ آصف علی زرداری صاحب ، اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور صاحبہ اور صدر ضیاء اُلحق کے ’ ’رُوحانی فرزند‘‘ میاں نواز شریف اور اُن کے برادرِ خورد میاں شہباز شریف وغیرہ مختلف مقدمات میں ملوث ہیں اور اب فضل اُلرحمن صاحب اور اُن کے کئی ساتھیوں سے بھی اپنی اپنی آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے کی ’’ طلبی ‘‘ شروع ہو گئی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ طلبی کاؔ عمل ’’ دائرہ عند اُلطلب ‘‘ میں لایا جاسکتا ہے کہ نہیں ؟
………………(جاری ہے )

ای پیپر دی نیشن