حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے ، اتنا طویل قیام فرمایا کہ محسوس ہوتا تھا کہ آپ رکوع نہیں کریں گے ، پھر آپ نے رکوع کیا، اتنا طویل رکوع کیا کہ سراٹھاتے نظر نہ آتے تھے ، پھرآپ نے رکوع سے سراٹھایا اوراتناطویل عرصہ اٹھائے رکھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ سجدہ نہیں کریں گے، پھر سجدہ کیا اوراتنا طویل سجدہ کیاکہ لگتا تھا کہ سجدے سے سر نہیں اٹھائیں گے، پھر سجدے سے سراٹھایا اوراتنی دیر جلسے میں رہے کہ لگتا تھا کہ دوسراسجدہ نہیں کریں گے، پھر سجدہ کیا اوراتنا طویل سجدہ کیا کہ محسوس ہوتا تھا کہ سرنہیں اٹھائیں گے، پھر آپ نے سجدے سے سراٹھایا اوردوسری رکعت میں بھی ایساہی کیا، پھر آپ نے نماز کے آخر میں پھونک ماری اوراف اف کے الفاظ آپکی زبان سے نکلے، پھر آپ نے عرض کیا: اے میرے رب ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں فرمارکھا کہ تو ان کو عذاب نہیں دے گا جب کہ میں ان کے درمیان موجود ہوں ،کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں فرمارکھا کہ تو ان کو عذاب نہیں دے گا جب کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہوں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہوچکا تھا۔(سنن ابی دائود )حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : میںنے کبھی حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھرپور طریقے سے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا ، اتنا کہ آپ کے دہن مبارک کا بالائی حصہ نظر آتا، آپ محض تبسم فرماتے تھے اورآپ جب بادل یا تیز ہوا دیکھتے تو اسکے آثار آپ کے چہرئہ انور پر نظر آجاتے ، میںنے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! لوگ جب بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں ، اس امید پر کہ اس میں بارش ہوگی، اورمیں دیکھتی ہوں کہ آپ جب بادل دیکھتے ہیں تو آپ کے رخ انور پر کراہت کے آثار نظر آتے ہیں ، آپ فرمایا : اے عائشہ ! کون سی چیز مجھے اس بات سے امن کی ضمانت دے سکتی ہے کہ اس میں عذاب ہو، پہلے ایک قوم کو آندھی کا عذاب آچکا ہے ، ایک اورقوم کو عذاب آتا نظر آیا تو وہ کہنے لگے : یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسانے والا ہے۔(سنن ابی دائود )حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میںنے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: خدا کی قسم ! میں ایک دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا سوال کرتا ہوں اوراس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔(صحیح بخاری)