پاکستان نیا بنائیں مگر پرانا تو نہ گرائیں !

Dec 04, 2021

ایک بیمارشخص کسی اتائی نما پیر کے پاس گیا اور اس نے اپنے بازوؤں اور ٹانگوں پر بڑے بڑے زخم دکھاتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کا بہت نام سن رکھا ۔ آپ کے حجرے کے باہر بیٹھے ہوئے مریدین نے بھی آپ کی بہت سی کرامات بتائی ہیں ۔ آپ کے مرشدین کی جماعت بھی یہی کہتی ہے کہ میر اتمام تر علاج صرف اور صرف آپ ہی کے پاس ہے اور ان کا کہنا ہے کہ آپ کے پاس ہرمرض کے علاج کا کئی سالہ تجربہ ہے اور پھر آپ نے دنیا بھر سے قیمتی اور نایاب نسخے جمع کررکھے ہیں ۔ اتائی نے مریض کا بغور معائنہ کیا اور کہا کہ یہ تو بہت معمولی بات ہے ۔ میں نے ایسے بہت سے مریض نہ صرف صحت یاب کیے ہیں بلکہ میرے علاج سے تو لولے لنگڑے بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ عطائی پیر نے کہا کہ تمہارا علاج 5 سال پر محیط ہوگا اور پہلے میں جو دوا دوں گا ، جس طرح اور جس خوراک کے ساتھ یہ دواکھانی ہے وہ سب لکھ کر دوں گا ۔ اس سے تین سال کے اندر اندر تمہارے دونوں پاؤں اور ہاتھ جھڑ کر ختم ہوجائیں گے ، صرف ٹانگوں اور بازوؤں کے نشان باقی رہ جائیں گے۔جب یہ کیفیت ہو جائے تو تم نے دوائی کا مزید استعمال بند کرکے میرے پاس آنا ہے پھر میں نئی دوا دوں گا جس سے تمہارے نئے ہاتھ ، بازو، پاؤں اور ٹانگیں دوبارہ نکل آئیں گی جو کم از کم 50 سال کیلئے کارآمد ہوں گی یعنی تم اپنی بقایا زندگی ایک صحت مند اور مکمل انسان کی طرح گزارو گے۔مریض مرتا کیا نہ کرتا خاموشی سے دوا لیکر چلا گیا اور پانچ سال استعمال کرتا رہا اور اس امید پر کہ نئی ٹانگیں اور بازو نکل آئیں گے، سخت اذیت برداشت کرتا رہا ۔جب وہ دونوں ٹانگوں اور بازؤں سے محروم ہوگیا تو نئی دوائی لینے کیلئے اتائی پیر کے آبائی شہر روانہ ہوا ۔ دروازہ کھٹکھٹایا اور آمد کا مقصد بتایا تو وہاں سارا ماحول تبدیل شدہ تھا۔دوا کی دوسری خوراک لینے اور پیر صاحب سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ایک مرید اس کی وہیل چیئر گھسیٹتا ہوا حجرے کی عقبی جانب گیا کہ پیر صاحب کا تو انتقال ہوگیا ہے اور جاتے ہوئے وہ اپنے مجرب نسخہ جات بھی کسی کو بتا کر نہیں گئے ۔ شدت کے کرب میں مبتلا نامکمل مریض نے سوال کیا کہ حکیم صاحب کی اہلیہ سے ہی معلوم کرلیں شاید انہیں نسخہ بتا کر گئے ہوں ۔ بار بار اصرار پر اہل خانہ سے پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ حکیم صاحب کی بیوہ نے اپنی زندگی میں ہی اپنا بھی تمام تر علم حکیم صاحب کو روحانی طور پر منتقل کرکے خود پردہ نشینی اختیار کر لی اور دنیاوی زندگی سے لاتعلق ہوگئی تھیں۔لہٰذااب فیض ملا تو شاید قبر سے ہی مل سکے ۔آخری اطلاعات کے مطابق اس لولے ، لنگڑے مریض کا گزشتہ کئی سال سے واحد مسکن قبر مبارک ہی ہے ۔ نہ فیض ملے ، نہ وہ گھر جائے اس طرح مریدین کی تعداد میں ایک اورکا اضافہ ہوگیا۔ 
کہتے ہیں کہ انتظار کرنے والوں کو بس اتنا ہی ملتا ہے جو کوشش کرنے و الوں سے بچ جاتا ہے۔اسرائیل کے زیر قبضہ شہر تل ابیب کے وسط میں یہودیوں نے بہت بڑی اسلامی یونیورسٹی قائم کررکھی ہے جس سے ہزاروں طالبعلم اسلامی تعلیمات کے حوالے سے مکمل علم حاصل کرچکے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی کلمہ گو نہیں کہ اعمال کا دارومدار تو نیتوں پر ہوتا ہے ۔اس یونیورسٹی میں داخلے کی واحد شرط یہودی ہونا ہے ۔ یہاں عربی زبان سیکھنا حتی کہ اس پر عبور حاصل کرنا ہر طالبعلم پر لازم ہے ۔اس یونیورسٹی میں قرآن مجید کی تعلیمات کے تمام تر اسلامی پہلوؤں کو پڑھایا جاتا ہے اور اسلامی اخلاقیات کی روشنی میں روزمرہ زندگی گزارنے کے طریقوں پر رہنمائی دی جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ انہیں تعلیم دے کر دنیا بھر کے ممالک میں نوکریاں بھی دلوائی جاتی ہیں اور ملازمت کے حوالے سے ان کا فوکس زیادہ تر میڈیا اور سیٹلائٹس چینلز کی ملازمت ہوتی ہے ۔ تاہم گزشتہ دس سال سے وہاں سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی تربیت دی جارہی ہے جبکہ اس ادارے میں تمام تر تعلیم یہودیت کے ٹارگٹ کے حصول کو مدنظررکھ کر دی جاتی ہے ۔ اس تعلیمی ادارے کے فارغ التحصیل طلبہ کی رسائی دنیا کے ہر خطے حتی کہ مسلمانوں کے تمام روحانی مراکز اور مقامات تک بھی ہے ۔
بہت سال پہلے کی بات ہے کہ پاکستان کے افغان بارڈر کے اس پار پربھاکر نامی ایک غیر ملکی ہندو اور انٹیلی جنس آفیسر کئی سال تک دینی مدرسہ چلاتا رہا اور اسے اسلامی تعلیمات پر بھی مکمل دسترس حاصل تھی مگر اس کے دل پر کُفر کا قفل تھا جو اسے ہر وقت اسلام دشمنی پر اُکسائے رکھتا۔ پاکستان کے خفیہ اداروں نے دن رات ایک کرکے اسے بے نقاب کیا اوراس کا مدرسہ بند ہوا مگر ا س وقت تک وہ بہت سے طالبعلموں کے ذہن کو اُلجھاؤ کا شکار کرچکا تھا۔جب کسی گھر پر ہر طرف سے یلغار ہو تو گھروالے کی ذاتی دشمنیاں ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور ذاتی مفادات کو بھول کر دشمن کے خلاف صف آراء ہوجاتے ہوتے ۔ سیانے کہتے ہیں کہ ایسا نہ کریں تو گھر کی ایک اینٹ بھی سلامت نہیں رہتی۔اس وقت پاکستان بھی اسی قسم کی صورتحال کا شکارہے ۔ کسی میں بھی اخلاص نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی ۔قوم کے بیٹے اپنی اولاد کے ابو میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔
پیچیدہ قومی مسائل کے جعلی ، سستے اور آسان حل کی تلاش نے پوری قوم کو مفلوج اور معذور بنا کر رکھ دیا ہے ۔ جب زندہ انسانو ں سے امیدیں ختم ہوتی ہیں تو قبروں سے رجوع کرنا اس قوم کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور رہی سہی کسر ہمارے وزیراعظم نے یہ کہہ کر نکال دی کہ سکون تو صرف قبر میں ہی ہے۔ مگر ہر چیزکا حل بتانے والے وزیراعظم قبر جانے کا حل نہ بتا سکے۔ اور کچھ نہیں تو اس پر اجتہاد ہی کرا دیں ۔

مزیدخبریں