رائو صاحب

ایک واقعہ گزشتہ جمعہ کے روز پنجاب کے شہر منڈی بہائوالدین میں پیش آیا۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ ایسا واقعہ تھا جس نے عدلیہ اور انتظامیہ دونوں کو لکھنے والوں کیلئے ایک موضوع دے دیا۔ واقعہ کچھ اس طرح بتایا جاتا ہے کہ منڈی بہائوالدین کی صارف عدالت میں ایک شخص نے درخواست دی کہ اسے ایک سرکاری کوارٹر الاٹ کیا گیا جس میں اس نے کچھ سامان وغیرہ بھی رکھ دیا مگر دوسرے یا تیسرے روز ہی ضلع انتظامیہ نے یہی کوارٹر ایک دوسرے شخص کو الاٹ کردیا اور ایک سرکاری اہلکار جو کلرک ہے مگر خود کو ہمیشہ افسر مقدمہ بازی (Litigation Officer)کے طورپر متعارف کراتاہے۔ اس نے ایک دوسرے شخص کو قبضہ دلادیا۔ متاثرہ شخص اپنی درخواست لے کر صارف عدالت پہنچ گیا جس کے سربراہ رائو عبدالجبار ہیں۔ رائو صاحب کے بارے میں بتاتاچلوں کہ وہ اس سے پہلے گوجرانوالہ میں ایڈیشنل سیشن جج اور پھر سیشن جج کے عہدے پر ایک عرصہ تک کام کرتے رہے ہیں۔ ان دونوں عہدوں پر کام کرتے ہوئے انہوں نے گوجرانوالہ میں اپنے عدالتی امور کے اچھے نقوش چھوڑے۔ لگ بھگ دو اڑھائی سال قبل جب یہاں سے ان کا تبادلہ ہوا تو صدر بار شہید اسلم جوڑا نے بار ہال میں انکے اعزاز میں ایک الوداعی دعوت کا بھی انتظام کیا جس میں وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور انکی عدالتی کارروائیوں کوسراہا۔ رائو صاحب بھی گوجرانوالہ سے سنہری یادوں کا خزینہ لیکر رخصت ہوئے۔ جب وہ گوجرانوالہ میں ایڈیشنل یا سیشن جج تھے۔ تو عدالتی امور سے فارغ ہوکر اکثروبیشتر چائے پینے بار روم میں آجایا کرتے اور وکلاء سے پیشہ وارانہ امور کے علاوہ بھی خوب گپ شپ رہتی ۔ بار اور بنچ کے تعلقات کو انہوں نے اسی طرح عمدہ انداز میںنبھایا۔کچھ جج ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے تبادلے پر دلی خوشی ہوتی اور کچھ ایسے کہ ان کا تبادلہ ہوجائے تو کثرت سے یاد آتے ہیں ۔ رائو صاحب کا شمار دوسری طرح کے ججوں میں ہوتا ہے۔ ذکرہورہا تھا۔ اس درخواست کا جس پر عدالت نے کارروائی کرتے ہوئے مقامی اسسٹنٹ کمشنر کو بھی طلب کیا تو اس نے اسی کلرک کو عدالت میں پیروی کیلئے بھیج دیا جس نے ایک فریق کو ناجائز قبضہ دلایا تھا۔ جب جج صاحب نے اس سے کچھ دریافت کرنا چاہا تو اس نے عدالتی وقار کا خیال نہ کیا اور "اختیار سماعت" کی بابت الجھ پڑا۔ جس پر جج صاحب نے اسے عدالت میں ایک کونے پر بٹھا دیا اور اگلے روز کیلئے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو وضاحت کیلئے طلب کرلیا۔ دونوں انتظامی افسران کو اپنے طلب کئے جانے پر غصہ تھا اور وہ بھی عدالت کے اختیار سماعت کو چیلنج کرنے چلے آئے۔ انہوں نے بھی عدالتی وقار کا کوئی خیال نہ کیا اور جج صاحب سے کلرک کی طرح ہی الجھ پڑے۔ عدالت کے اختیارسماعت کی بابت بتاتا چلوں کہ جس شخص نے رائو صاحب کی عدالت میں درخواست دی‘ وہ اگرچہ صارف کی تعریف میں نہیں آتا تھا اور عدالت کو بھی اگرچہ اس پر اختیارسماعت حاصل نہیں تھا مگر اس کیلئے بھی کوئی طریق کار ہوتا ہے۔ کوئی شخص جو وکیل بھی نہ ہو‘ بغیر کسی تحریری جواب کے براہ راست اگر کسی جج کو جاکر بھری عدالت میں یہ کہے کہ آپ کون ہوتے ہیں ہمیں طلب کرنے والے یا آپ کو اختیار سماعت نہیں تو ہمیں کیوں بلایا‘ پھر اختیارسماعت کا معاملہ پیچھے رہ جاتا ہے اور اصل جرم توہین عدالت کا بن جاتا ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا اور صارف عدالت کے سربراہ جو سیشن جج کے عہدے کے آدمی ہیں‘ انہوں نے ضلع پولیس کے سربراہ کو طلب کرکے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو تین تین ماہ کی قید سزاسنا دی۔ جونہی سزا سنائی گئی‘ سوشل میڈیا کے دلوں کی دھڑکن بھی تیز ہوگئی اور وہ اپنی عادت کے مطابق اچھے بُرے تبصروں سے لیس ہوکر لوگوں تک پہنچنا شروع ہوگیا۔ چندہی ساعتوں میں سوشل میڈیا پر یوٹیوب، بلاگرز اور نہ جانے کون کون سے چھوٹے موٹے چینلز نے اتنا غوغا کیا کہ ایک ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو سنائی جانے والی سزا اور ہتھکڑیاں جابجا عوامی دلچسپی کاموضوع بن گئیں۔ ملک بھر کے وکلاء کے بار روم اور عدالتوں کے سربراہان کے علاوہ چنگ چی رکشا ڈرائیوروں تک نے بھی اس پر ماہرانہ تبصروں کی بھر مار کردی۔ واقعی یہ اس دن کی سب سے بڑی خبر تھی۔ ایسی رائے کا اظہار بھی سنا کہ رائو صاحب نے بالکل ٹھیک کیا۔کسی کو بھی توہین عدالت کی اجازت نہیں دی سکتی کیونکہ اگریہ رسم چل نکلی تو پھر روکی نہ جاسکے گی‘ ہر طاقتور عہدے کا حامل عدالت کو فتح کرنے اور اسکے وقار کو پامال کرنے چل پڑیگا۔ معاشرے‘ عدالتوں کے دم قدم اور اسکی بالادستی سے قائم رہتے ہیں۔ عدالت ہر شخص کی آخری امید ہوتی ہے۔ رائو عبدالجبار کی صارف عدالت میں اصل مسئلہ "اختیارسماعت"کا نہیں توہین عدالت کا تھا اور اسی جرم میں ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو سزا سنائی گئی۔ اسکے باوجود کچھ لوگ دوسری رائے بھی رکھتے ہیں جس کا توازن انتظامی افسران کے حق میں جاتا ہے جن کے نزدیک رائو صاحب نے زیادتی کی۔ اس کہانی کا ڈراپ سین لاہور ہائیکورٹ میں ہوگیا جب چیف جسٹس صاحب نے سزا کوکالعدم قرار دے دیا جو بہرحال ایک اعلی صوبائی عدلیہ کا اختیار ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...