ایک مصور نے ایک بہت خوبصورت شاہکار بنایا اور اسے بیچ چوراہے لٹکا دیا اور نیچے ایک عبارت لکھی کہ اس تصویر میں کوئی بات اچھی ہے نشان لگائیے ساری رات اس نے انتظار میں گزاری کہ اسکی بنائی گئی تصویر پر اسکی حوصلہ افزائی ہوگی لیکن اگلے دن جب اس نے جاکر دیکھا تو تصویر پر کہیں کوئی نشان نہیں تھا اسے بڑی مایوسی ہوئی اس نے اس تصویر کے نیچے لکھ دیا کہ اس تصویر میں کوئی خامی ہو تو نشان لگائیں اگلے دن اس نے جاکر دیکھا تو تصویر پر نشانات کی بھرمار تھی حکومت بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہے بظاہر لگتا ہے کہ مہنگائی غربت اور بیروزگاری اور انتشار کی ذمے دار صرف موجودہ حکومت ہے اور اس حکومت سے قبل دودھ کی نہریں بہتی تھیں اور ملک معاشی، سیاسی لحاظ سے مستحکم تھا سابقہ ادوار کے ایک سیاسی رہنما سے جب پوچھا گیا کہ یہ سیاسی اور غیر سیاسی کلچر میں کیا فرق ہے تو وہ بولے کہ سیاسی کلچر کا سرا تو ملکی ترقی سے جاملتا ہے ہم نے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیا اور وہ وقت دور نہیں کہ ملک ایشیاء کا ٹائیگر ہوگا بلاشبہ تعمیری اقدام ملکی ترقی کا شازینہ ہے لیکن شاید غربت کا تعلق غیر سیاسی کلچر سے ہے کیونکہ ہر حکومت نے اس لاینحل مسئلے کو پس پشت ڈالے رکھا جب کوئی مسئلہ کھٹائی میں پڑتاہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکی سنگینی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے قدیم یونانی ریاستوں کا دستور تھا کہ حزب اقتدار کے فیصلوں پر جب کبھی اعتراض اٹھتا تھا تو حزب مخالف ایک برادری کے تحت اکٹھے ہوتے اور مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا حل ڈھونڈتے فوکویامہ اپنی کتاب ’’دی ٹرسٹ‘‘ میں اس گٹھ جوڑ کو ایک کنبہ قرار دیتا ہے لامتناہی مسائل اور غربت کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے اپوزیشن ہربار نئے عزم کے ساتھ میدان عمل میں آتی ہے لیکن یہ عزم اور ارادے کی ہنڈیا بیچ چوراہے ہی پھوٹ جاتی ہے جس کی وجہ سے حکومت کو ٹف ٹائم دینے اور گھر بھیجنے کا خیال شرمندہ تعبیر ہو ہی نہیں پاتا در حقیقت عملی اقدامات کا فقدان اور کسی ایک فیصلے پر اتفاق نہ ہونا بنیادی وجہ ہے دوسری وجہ بیان حلفی آڈیوز اور ویڈیوز نے فضا نے فضا کو مسموم کردیا ہے اس پر طرہ یہ کہ راناشمیم کے بیان نے بیان حلفی کی صداقت کا بھانڈا پھوڑ دیا اس قسم کی سیاست مستقبل پر کیا اثرات مرتب کرنے جا رہی ہے بیان حلفی کے ذریعے لگائے لائے جانے والے تماشے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے ملک میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ نے ملک کو اس انتشار کی طرف دھکیل دیا جس سے سیاسی عدم استحکام معاشرے کا حصہ بن جاتا ہے یہ لمحہ فکریہ ہے دو اداروں کو متنازعہ بنا کر سیاسی فوائد سمیٹنے کا کھیل درحقیقت اجتماعی مفاد ریاست کی بقا اور سالمیت کے ساتھ کھلواڑ ہے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے سازش کی سیاست کی بجائے اجتماعی مفادات غربت کے خاتمے اور لامتناہی مسائل کے حل کی سیاست کو فروغ دیں مائنڈ سیٹ کا مسئلہ اسوقت خطرنک صورتحال اختیار کرجاتا ہے جب یہ سیاسی زندگی میں نمودار ہوجاتا ہے لیکن اس مائنڈ سیٹ کی حاکمیت کو عوام کی منشاء کے بغیر لمبے عرصہ تک قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے خصوصاً جب یہ اداروں پر اثرانداز ہوتی ہے تو اسکے بھیانک اثرات مرتب کرتی ہے پھر ہر آنے والی حکومت کے تعمیری کام بھی تنقید کی زد میں آنے لگتے اور ترقی کے سفر کے بجا میں نہ مانوں کی سیاست ملک کا حصہ بن جاتی ہے روایتی طور پر ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ عدلیہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے کسی فردواحد کے کسی فعل سے عدلیہ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا اور جمہوری ریاستوں میں تو عدلیہ کی ساکھ پر اثرانداز ہونا ذاتی مفادات کے اس بیج کو بونے کے مترادف ہے جس کے تن اور درخت کے ہی پیچھے وہ آمرانہ نظام کی کہانی پوشیدہ ہوتی ہے جسکا عوام کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا شاید ہمارے دانا حضرات یہ بتا سکیں کہ جہاں اداروں کا وقار مجروح ہو جہاں اعتراضات کا سلسلہ صرف اپنے مفادات کا تحفط ہو تو پنجابی کی ایک کہاوت اس صورتحال پر پوری اترتی ہے کہ آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہو۔۔ آڈیوز اور ویڈیوز سے زیادہ ہمارے پاس اور کئی معاشی معاملات ہیں حکومت اور اپوزیشن کو اس صحت مند رحجان کو فروغ دینا چاہیے اور لچک دکھانی چاہیے کہ مل بیٹھ کر مسائل حل کریں اور اس تعطل کی طرف نہ جائیں جسکا انجام انارکی ہے کسی ادیب نے لکھا کہ مملکت خداداد کی مثال اس ٹرین کی سی ہے جس کو آغاز سفر سے درست سمت نہ مل سکی اس کی درست سمت کبلئے اعتراض اور طاقت کی سیاست کی بجائے باہمی اعتماد کو فروغ دیں پرشکوہ اورطاقتور حکومت تو مغلیہ دور حکومت میں ظہیرالدین بابر کی بھی تھی اس کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ قلعے کی دیوار پر دو آدمی بغل میں دبائے بھاگتا تھا لیکن سلطان یہ نہیں سوچ پایا کہ ان دو آدمیوں پر کیا گزرتی ہوگی جن کو وہ بغل میں دبائے دوڑتا تھا ہم بھی اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں اتنا گم ہیں کہ یہ فراموش کرچکے ہیں عوام پر کیا گزررہی ہے ابن خلدون کے نزدیک ریاستوں کی بقا کا واحد اصول مشترکہ سوچ ہے جب تک ہم اس سوچ کو فروغ نہیں دینگے سیاسی انتشار کا سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ نہ تو اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دے پائے گی ۔
بھان متی کا کنبہ
Dec 04, 2021