لانس نائیک
تاریخ پیدائش: 25 اکتوبر 1944ء
تاریخ شہادت: 8 دسمبر 1971ء
یونٹ: 15 پنجاب رجمنٹ
محفوظ شہید 25 اکتوبر 1944ء کو راولپنڈی کے علاقے پنڈ ملکاں (جو اب محفوظ آباد کے نام سے جانا جاتا ہے) میں پیدا ہوئے۔انہوں نے 17 برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد 25 اکتوبر 1965ء کو اپنی سالگرہ کے دن پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ انہیں تربیت کے لئے پنجاب ریجمنٹل سنٹر بھجوایا گیا اور تربیت کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد انہیں 15 پنجاب رجمنٹ کی اے کمپنی میں تعینات کر دیا گیا۔
1971ء میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا تو اس وقت محفوظ شہید کی کمپنی واہگہ اٹاری سیکٹر میں تعینات تھی۔ ان کی کمپنی کو ’’پل کانگڑی‘‘ نامی گاؤں پر حملے کا حکم دیا گیا کیونکہ اس علاقے میں قائم بھارتی چوکی سے پاکستان افواج پر مسلسل فائرنگ ہو رہی تھی جس کے باعث ہمارے دستوں کو پیش قدمی کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ یہ بھارتی چوکی پاکستانی پوزیشن سے محض 75 یارڈ کے فاصلے پر قائم تھی اور دشمن کی جانب سے اس کے دفاع کو ہر ممکن حد تک یقینی بنایا گیا تھا۔ محفوظ شہید کی کمپنی نے حملے کا آغاز کیا تو کمپنی کمانڈر کی جانب سے محفوظ شہید کو چند ساتھیوں کے ہمراہ پیش قدمی کرنے والے دستے کو کور فائر دینے کیلئے لائٹ مشین گن سنبھالنے کا حکم دیا گیا۔ ان کی ذمہ داری پیچھے رہ کر اپنے ساتھیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا تھی۔ پیش قدمی کرنے والے پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ ساتھ محفوظ شہید اور ان کے ساتھی بھی کور فائر کیلئے آگے بڑھتے چلے گئے تاآنکہ کہ بھارتی چوکی سے ان پر بھی فائرنگ کے سلسلہ شروع ہو گیا۔ بھارتی چوکی سے نہ صرف مسلسل فائرنگ ہو رہی تھی بلکہ ہر طرح کے چھوٹے بڑے ہتھیاروں سے گولہ باری بھی کی جا رہی تھی۔ محفوظ شہید مشین گن پر موجود اپنے ساتھی کے ہمراہ پیش قدمی کرنے والے دستے کو کور فائر دیتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور پھر دشمن کی فائرنگ کی زد میں آکر ان کے ساتھی نے جام شہادت نوش کر لیا۔
محفوظ شہید نے عزم و حوصلہ اور کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود مشین گن سنبھال لی اور بھارتی فوجیوں کو نشانے پر رکھ لیا۔ بھارتی چوکی کی جانب سے پھینکے جانے والے ایک گولے کے پھٹنے سے محفوظ شہید کی مشین گن ناکارہ ہو گئی۔ لیکن دشمن کا یہ وار محفوظ شہید کے حوصلے اور ہمت کو متزلزل کرنے میں یکسر ناکام رہا۔ نوجوان محفوظ شہید نے دیکھا کہ دشمن کے ایک مورچے سے پیش قدمی کرنے والے پاکستانی جانبازوں پر اندھا دھند فائرنگ کی جا رہی ہے۔ محفوظ شہید نے بہترین پیشہ وارانہ تربیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے اس بنکر کی جانب بڑھنا شروع کر دیا۔ مورچے کی جانب بڑھتے ہوئے وہ ٹانگوں میں گولیاں اور بموں کے ٹکڑے لگنے سے شدید زخمی ہو گئے اور ان کیلئے چلنا ناممکن ہو گیا۔ انہوں نے ہمت ہارنے کی بجائے زمین پر رینگتے ہوئے دشمن کے مورچے کی جانب بڑھنا جاری رکھا تاکہ وہ اپنے کمانڈر کا حکم بجا لائیں اور دشمن کی گولیوں کا نشانہ بننے والے اپنے ساتھیوں کا انتقام لے سکیں۔ وہ کرالنگ کرتے ہوئے بھارتی مورچے کے عقب میں پہنچ گئے اور گولیوں سے چھلنی ٹانگوں کے باوجود کھڑے ہونے میں کامیاب ہوئے۔ مورچے کے اندر موجود بھارتی فوجی مشین گن سے پاکستانی دستے پر فائرنگ کرنے میں مصروف تھے۔ محفوظ شہید شیرببر کی طرح مشین گن چلانے والے بھارتی فوج پر چھپٹے اور اس کی گردن دبوچ لی۔ مورچے میں موجود دیگر بھارتی فوجیوں نے محفوظ شہید پر رائفلز اور سنگینوں سے حملہ کر دیا لیکن پاکستان کے اس جری بیٹے نے دشمن کی گردن پر اپنے آہنی ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی نہیں پڑنے دی اور اس کو واصل جہنم کر دیا زخموں سے چور نوجوان محفوظ بے دم ہو کر گر گیا لیکن ان کے اس دلیرانہ حملے کے نتیجے میں پاک فوج کے پیش قدمی کرنے والے دستے کو معجزانہ طور پر اس بھارتی چوکی پر قبضے کا موقع مل گیا اور یوں پاک فوج کے جوانوں نے محفوظ شہید کی بے مثال جرأت و بہادری کے طفیل عسکری تاریخ کا ایک زریں اور ناقابل فراموش باب رقم کیا۔ بلاشبہ اس بھارتی چوکی کو محفوظ شہید کی جرأت اور ناقابل تسخیر ارادے نے سرنگوں کیا تھا۔ شدید زخمی محفوظ کو وہاں سے نکال لیا گیا تاہم اس رات یعنی 17 دسمبر 1971ء کو پاکستان کا یہ قابل فخر سپوت مادر وطن پر اپنی جان نچھاور کر گیا ا ور اسی رات پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہو گئی۔
جنگ بندی کے بعد پاکستان اور بھارت کے فوجی کمانڈرز کے درمیان ’’وائٹ فلیگ‘‘ میٹنگ ہوئی تو اس موقع پر بھارتی کمانڈر نے کہا کہ اس نے جنگوں اور معمول کی زندگی کے دوران کئی ایک مراحل دیکھے لیکن کسی کو محفوظ شہید جیسی جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل ٹکا خان نے ان الفاظ میں محفوظ شہید کو خراج تحسین پیش کیا:’’محفوظ شہید کی بے مثال جرأت اور بہادری پاک فوج کے ہر افسر اور جوان کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ پوری قوم اور مسلح افواج کو اپنے اس جانباز پر فخر ہے۔‘‘