سب سے آسا ن کام ہے اپنے سر سے بلا کو ٹال دینا،بچپن سے آبادی گھٹائو ، وسائل بڑھائو جیسے مبہم نعرے سڑکوں پر آویزاں دیکھتے آرہے ہیں۔اب وزیر اطلاعات نے نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ ملک میں ریسورسز اور مواقع کم ہیں ، اس لیے نوجوان زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع تلاش کرنے باہر جائیں۔ پچھلے سال بھی 11 لاکھ بے روزگار اس عظیم مقصد کے لیے باہر جا چکے ہیں۔ چور ی، ڈاکے اور دیگر جرائم پر سزا ملتی تھی لیکن اب کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پرانی بات چھوڑیے، بدقسمتی سے گزشتہ دو تین ماہ میں قتل و غارت کی بہت سی کاروائیاں دیکھی ہیں۔ ناظم کھیتیو کے قاتلو ں کو سزا ہوئی! نہ کراچی میں سندھ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کے قاتلوں کو پکڑا گیا اور نا ہی لاہور میں ملک شاہنوار کے دن دہاڑے قتل کی لرزہ خیز واردات پر قانون حرکت میں آیا۔ یاد رکھیں !!سزائیں اس لیے دی جاتی ہیں کہ لوگ عبرت حاصل کریں ۔ہمارے ہاں چلن یہ ہے کہ کہیں کسی مجرم کو سزاملتی بھی ہے تو ضامن حضرات کورٹ روم سے ہی بااثر افراد کو چھڑا کر لے جاتے ہیں۔ اس کی واضح مثال گزشتہ دنوں ایک پراپرٹی کاروبار سے منسلک شخصیت کی ہے جنہیں ان کے ذاتی دوست پولیس کی تحویل سے چھڑا کر لے گے۔ گزشتہ اور گزشتہ سے پیوستہ حکومتوںمیں حالات تقریبا سازگار تھے ۔ معاملہ فہمی عروج پر تھی۔ روزگار کے مواقع بھی تھے۔ انوسٹمنٹ اور زرمبادلہ میںدن بدن ترقی ہو رہی تھی۔ مگر اب جو حالات ہیں وہ ناگفتہ بہ ہیں۔ پراپرٹی اور ریئل سٹیٹ کو ہی دیکھ لیں ۔ سی ڈی اے نے ایک سابق صوبائی وزیر کو سائسنگ سیکٹر میں اسلام آباد میں کام کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جبکہ باقی سوسائیٹیز کے این او سی کینسل کر دیے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ٹھیک کہا تھا کہ میں امیروں اور غریبوں کے لیے ایک ہی نظام بنا ئوں گا ۔ اب ایسا ہے کہ ہر امیر تو اپنی چاہت کو حاصل کر لیتا ہے مگر غریب کے لیے بھی چونکہ وہی قانون ہے کہ اسے بھی چھین کر یا رشوت سے ہی اپنا حق لینا ہے تو یہ استحقاق چونکہ غریب کو تو حاصل نہیں ہے اس لیے اس میں تو حکومت کا کوئی قصور نہیں ہے۔ امیروں کو کھلی چھوٹ اور غریبوں کو بھی کھلی چوٹ ۔ حساب برابر۔ قرآن میں سود خور کے حوالے سے بڑی وعیدیں آئی ہیں مگر پاکستان میں حکمران سودی کاروبار میں شراکت اور حصو ل کے لیے آمادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ حکومت وقت ارض وطن کو ایک ویسٹرن پرافٹ ایبل ادارے کے طور پر چلارہی ہے۔حکومت کے تمام منصوبے کاغذوں ، رپورٹوں، سوشل میڈیا پر چل رہے ہیں۔ حکومت جن خاندانوں کو بھی راشن، قرضہ، کھانایا ماہانہ بنیادوں پر پیسے دے رہی ہے یہ سب کا سب مختلف فلاحی تنظیموں کے آسرے پر ہورہا ہے۔ حکومت نے اخوت کیساتھ مل کر سودسے پاک قرضہ دینا شروع کیا ہے اورتین سالوں میں 10 سے 15 کروڑ کی غریب آبادی میں سے اب تک صرف17,000 افراد کو قرضے فراہم کیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے تین سالہ دور اقتدار میں ہر پاکستانی پر قرضے کا بوجھ 1لاکھ 33 ہزار سے بڑھ کر 2 لاکھ 35 ہزار پر پہنچ گیا ہے۔حکومت پاکستان کا قرضہ 50 کھرب روپے ہوگیا جس میں 20 کھرب کا اضافہ عمران خان حکومت کے صرف تین سال میں ہوا۔ کشکول توڑنے کے بجائے اس کا سائز ہی بڑھا دیا گیا۔حکومت دوسری بار پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے سعودی عرب سے 3 ارب ڈالرز کی بھیک حقارت امیز شرائط کیساتھ لینے پر آمادہ ہوئی ہے۔ لگتا ہے جیسے پورے ملک پر جمود طاری ہے۔ ہر طرف مہنگائی اور بے روزگاری کا فضاء ہے، لیکن کوئی سڑکوں پر کوئی نہیں ہے!!مگر اب کی بار طاری جمود اور سکوت ٹوٹا ہے۔ خامشی نے اس وقت ضبط کے بندھن کو پاش پاش کر کے رکھ دیا جب بی بی سی، سی این این، فاکس اور اے بی سی جیسے بڑے اداروں نے بلوچستان کے مولانا ہدایت الرحمان کو بلوچستان کے حقوق کے لیے کھڑے ہونے اور بہت بڑی تعداد میں خواتین کو باہر نکالنے پر کوریج دی۔ ’’گوادر کو حق دو ‘‘ تحریک کے روح رواں مولانا ہدایت کے مطالبات کو فورا تسلیم کر نا چاہیے۔ مولانا ہدایت الرحمان بلوچیوں کے حقوق کے لیے 17 دن سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ گزشتہ 50 سال کی توانا آوازمولانا ہدایت الرحمن کے مطالبات کو تسلیم کر کے برابری، اخوت اور انصاف کی بنیاد رکھنا ہو گی۔