جب سے حکومت تبدیل ہوئی ہے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان معاشی مسائل کا شکار ہوگیا ۔ کئی ماہ سے یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرنے کے قریب ہے۔ سب سے پہلے اس موضوع پر سیر حاصل تجزیہ کرنے کے لئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ڈیفالٹ کرنے کا کیا مطلب ہے۔ ڈیفالٹ دراصل کسی ملک کی قرضہ واپس کرنے کی صلاحیت کے ختم ہونے کو کہتے ہیں۔ پاکستان اَب تک 22مرتبہ آئی ایم ایف اور دوسرے بین لااقوامی امداد دینے والے اداروں سے قرض لے چکا ہے اور صرف دو مرتبہ کے علاوہ تمام معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے وقت پر قرض کی اقساط ادا کرتا رہا ہے صرف دو مرتبہ ایسا ہوا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرنے سے معذوری ظاہر کی اور معاہدے کو درمیان میں چھوڑ کر نیا معاہدہ کر لیا۔ جس کی شرائط کچھ نرم اور پاکستان کی قرضہ ادا کرنے کی صلاحیت کے مطابق تھیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی میں مشکلات کے پیش نظر نیا معاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے اور اسے ڈیفالٹ نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح مشکل معاشی صورت حال کے پیش نظر پاکستان دوست ممالک سے دو طرفہ معاہدے کے تحت لئے جانے والے قرضوں کی ادائیگی بھی ان ملکوں سے درخواست کرکے کچھ عرصہ کے لئے مؤخر کر سکتا ہے۔ اِسے بھی ڈیفالٹ نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان میں کچھ عناصر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ یہاں بھی سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اگرچہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان آج بھی معاشی بحران کا شکار ہے لیکن اس بحران کی بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے جو کافی عرصے سے جاری ہے۔ اتنے طویل عرصے تک یہ صورتحال کبھی نہیں ہوئی۔ لیکن سیاسی عدم استحکام کے علاوہ کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومت پر دبائو بڑھانے کے لئے پروپیگنڈہ عروج پر ہے۔ افواہوں کا زُور ہے کہ پاکستان مہینوں میں نہیں ،ہفتوں میں نہیں بلکہ چند دنوں میں ڈیفالٹ ہو جائے گا۔ اِن افواہوں میں کوئی صداقت نہیں جن کی وجوہ یہ ہیں:
-1 پاکستان کا سری لنکا سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ سری لنکن حکومت کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ ہوا۔ کئی بار حکومت کو مشورہ دیا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سری لنکا کی حکومت نے آئی ایم ایف کے قرضے کی پیش کش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ سری لنکا کی سیرو سیاحت کی صنعت عروج پر ہے اور وہ بڑی مقدار میں زرمبادلہ کمانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حکومت کو اندازہ نہیں ہوا کہ کوڈ19 کی وجہ سے سری لنکا کی سیرو سیاحت کی صنعت تباہ ہو جائے گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے پاس تیل خریدنے کے لئے بھی زرمبادلہ نہیں بچا اور ملک بحران کا شکار ہوگیا۔ ہم سری لنکا کے حالات کا پاکستان سے موازنہ کریں تو کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔ اس کا جغرافیائی محل وقوع اتنا اہم ہے کہ کوئی بھی بڑی طاقت اس کو کبھی بھی ڈیفالٹ نہیں ہونے دے گی۔ خاص طور پر چین کی جانب سے کثیر المیعاد اور مہنگا ترین سیپک پروگرام بغیر کسی روکاوٹ کے جاری رکھنے کے لئے پاکستان میں معاشی استحکام ناگزیر ہے۔ اس لئے چین دُنیا کا آخری ملک ہوگا جو ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہے اور پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے دے۔
-2 پاکستان پر بین الاقوامی اداروں کا قرض اتنا زیادہ ہے کہ کوئی بھی قرض دینے والا ادارہ کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے اور ان کا دیا ہوا قرضہ ڈوب جائے اور قرضہ کی واپسی کے امکانات ختم ہو جائیں۔
-3 پاکستانی درآمدات 80ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ امریکہ، یورپین یونین، مشرقی وسطیٰ کے ممالک اور چین سے بڑی تعداد میں اشیاء درآمد ہوتی ہیں۔ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتاہے تو ان تمام ممالک کی پاکستان کو برآمدات بُری طرح متاثر ہوں گی جو ان ملکوں کے لئے ناقابل قبول صورتحال ہوگی۔اس لئے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانا ان کے اپنے مفاد میں ہے۔
-4 چونکہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اس لئے اس کے ڈیفالٹ ہونے سے شدید سیاسی بحران جنم لے گا اور ایک غیر مستحکم حکومت دُنیا کے مفاد میں بالکل نہیں ہوگی۔ اس طرح اس بات کا خطرہ پیدا ہو جائے گا کہ ایٹمی پروگرام غیر محفوظ ہاتھوں میں پہنچ جائے۔ کوئی بھی بڑی طاقت کبھی بھی پاکستان کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دے گی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی افواہیں پھیلانے کی بجائے تمام سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حکومت سے باہر، محب الوطنی کا ثبوت دیں اور چارٹر آف معیشت پر دستخط کریں کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے ہر سطح پر آپس میں تعاون کریں گی۔ یہ بالکل ممکن ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں نفرت کی سیاست اور اَنا پرستی ترک کردیں۔