وزیر اعظم کا دورہ ترکیہ، مثبت پیش رفت  

Dec 04, 2022

پاکستان اور ترکیہ  کے درمیان تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلقات دونوں ممالک کی بنیاد سے ہی قائم ہیں ۔ تاریخی اعتبار سے  ترکیہ اور پاکستان دو برادر ممالک کے طور پر اپنے تعلقات نہ صرف جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کیتعلقات کو اگلی سطح تک بڑھانے کی کوششوں میں مزید تیزی آئی ہے۔ انقرہ اور اسلام آباد نے موجودہ صدی کے آغاز سے  اپنے دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرتے ہوئے علاقائی ، کثیر جہتی فورمز اور عالمی سطح پر اپنی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کے لیے بھی مختلف اقدامات کیے ہیں ۔وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کا حکومت سنبھالنے کے بعد مختصر عرصہ میں یہ دوسرا دورہ دورہ تھا جس کا مقصد معاشی چیلنجز کا مل کر مقابلہ کرنا اور دفاعی تعلقات سمیت دیگر شعبہ جات میں مزید آگے بڑھنا تھا ۔ اس دورہ کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے علاقائی خوشحالی لانے، غربت کے خاتمے اور لوگوں کو تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات کے ذریعے بااختیار بنانے کے لیے ترکیہ کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) میں شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس اہم منصوبے کے تجربات اور ثمرات سے فائدہ اٹھا رہا ہے ، چین پاکستان اور ترکیہ کے درمیان یہ تعاون اقتصادی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے جو موجودہ معاشی و اقتصادی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے ۔اس سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان بھی یہ دعوت دے چکے ہیں ۔ سی پیک نہ صرف چین اور پاکستان کے لیے ایک موقع ہے بلکہ ترکی سمیت خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی امید افزا ہے۔ CPEC میں ترکی کی ممکنہ شرکت کے ساتھ، بحیرہ روم میں ترکی کی بندرگاہیں، جیسے مرسین، بہت سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے میری ٹائم سلک روڈ میں اہم سنگم بن گئی ہیں۔ پاکستان چین کے ساتھ سٹریٹجک شراکت 
داری کو فروغ دے رہا ہے، اس طرح اپنے روایتی حریف بھارت کے خلاف توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خطے کے ترقی پذیر اقتصادی تعلقات میں ترکیہ کی شمولیت سے علاقائی طور پاکستان کو مزیدمتبادل حلیف مل سکتے ہیں ۔علاوہ ازیں اس منصوبے کے تحت مختلف صنعتی زونز قائم کیے جارہے ہیں جس سے ترکیہ کے سرمایہ کار فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ ترک سرمایہ کار بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) سے آنے والے بے پناہ مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے کام شروع کریںکیونکہ یہ دنیا کے ان حصوں کو جوڑ دے گا جن کا رابطہ کم ہے اس حوالہ سے پاکستانی حکومت ترکی کے سرمایہ کاروں کو تمام ضروری مدد فراہم کرنے کا وعدہبھی کر چکی ہے ۔
پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دفاعی میدان میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے اس دورے کے دوران  استنبول شپ یارڈ میں پاک بحریہ کے لیے ترکی کے تیار کردہ چار ملجم کارویٹ بحری جہازوں میں سے تیسرا پی این ایس خیبر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ یہ منصوبہ دونوں ممالک کے باہمی تعاون کو بڑھانے کے لیے ''اخلاص، مقصد اور عزم'' کا مظہر ہے۔ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں تناؤ بڑھ رہا ہے اور اشیاء کی بین الاقوامی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور ترقی پذیر ممالک کی پہنچ سے باہر جا رہی ہیں، دونوں ممالک کے لیے دفاعی تعاون کو اعلیٰ سطح پر لے جانا ضروری ہے۔ ترکیہ کے تیار کردہ جدید ترین ملجم کلاس جہازجو سطح سے سطح اور سطح سے ہوا میں ہتھیاروں کے جدید نظام سے لیس ہے کی پاکستان نیوی میں شمولیت نہ صرف سمندر میں ملکی دفاع کو مضبوط کرے گی بلکہ دونوں ممالک کے دفاعی تعلقات میںمزید نئی راہیں کھولنے کی بنیاد بنے کی ۔پاک بحریہ نے ترکی کی سرکاری دفاعی فرم ASFAT کے ساتھ چار سال قبل ملجم کلاس کے چار جہازوں کے حصول کے لیے ایک معاہدہ کیاتھاجس کے مطابق دو کارویٹ ترکی میں بنائے جائیں گے، اور باقی دو پاکستان میں بنائے جائیں گے اس معاہدے کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی شامل ہے۔سمندری علاقوں کو محفوظ کرنے والے ملجم جہازجن کی لمبائی 99 میٹر (325 فٹ) ہے، نقل مکانی کی صلاحیت 2,400 ٹن ہے، اور رفتار 29 سمندری میل ہے پاکستان کی دفاعی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوجی حکام اس دفاعی تعلق کودونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد، دوستی اور اصولوں پر مبنی قرار دے رہے ہیں ۔یا د رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فوجی حکاممسلسل علم اور مہارت کا تبادلہ کرنے کے منصوبہ پر گامزن ہیں ۔
اس دورے کے دوران پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے قابل تجدید توانائی کی پیداوار میں سرمایہ کاری اور توانائی کے روایتی ذرائع پر انحصار کم کرنے کے لیے ہاتھ ملانے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان توانائی کے قابل تجدید ذرائع یعنی سولر، ہائیڈل اور ونڈ کی طرف منتقل ہونا چاہتا ہے اور ترک سرمایہ کاروں کے پاس ان شعبوں میں مالی اعانت کی بڑی صلاحیت ہے۔پاکستان اس وقت جن معاشی بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے ان میں سب سے اہم   پیٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے پاکستان کے درآمدی بلمیں مسلسل اضافہ ہونا ہے اسی لیے وزیر اعظم نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ آئیے مل کر ہاتھ جوڑیں اور زیادہ کاربن کے اخراج سے چھٹکارا حاصل کریں، اپنے درآمدی بلوں کو کم کریں اور شمسی، ہائیڈل اور ونڈ انرجی کے لیے سرمایہ کاری میں تعاون کریں ۔یہ بات درست ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان قابل رشک بھائی چارہ اور تعلقات کے باوجوددونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کا حجم اس حد تک نہیں ہوسکا تاہم یہ دونوں ممالک کی قیادت کو فیصلہ کرنا ہے کہ ان دونوں ممالک جن کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں کے تجارتی تعلقات کے حجم کو بھی اسی سطح پر لے کر جاناہو گا۔
مذہب ، ثقافت اور تاریخ اعتبار سے غیر معمولی ہم آہنگی اور باہمی اعتماد سے جڑے دونوں ممالک کے لیے تعان کے بڑے مواقع منتظر ہیں ۔ تعلیم سے لے کر سیاحت تک اور معیشت سے لے کر عالمی فورمز تک  دوطرفہ اور کثیرالجہتی دونوں سطحوں پر باہمی تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔پاکستان اور ترکی جس سطح پر اعتماد اور ہمدردی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اس کی نسبت آج کی مسابقتی دنیا میں بیان کرنا بہت کم ہے۔ 

گہری جڑوں والے برادرانہ تعلقات دونوں قوموں کو فطری اتحادیوں کے طور پر پیش کرتے ہیں جن کے تعلقات، پوری تاریخ میں، زیادہ بہاؤ اور شاذ و نادر ہی کم ہوتے دیکھے ہیں۔ دو قوموں کے درمیان ہم آہنگی کے تمام شعبے شامل ہیں۔ حساس اور اہم مسائل پر ایک دوسرے کی غیر مشروط اور پرجوش جغرافیائی سیاسی حمایت نے ان کی اسٹریٹجک شراکت داری کو باہمی اعتماد کی اگلی سطح تک پہنچا دیا ہے۔ دونوں فریقوں کو اس تعلقات کو مزید قومی سلامتی پر مبنی بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ مشترکہ طور پر دونوں فریقین کو بہت سے خطرات اور اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔

مزیدخبریں